نواز شریف کے خلاف 4.9 ارب ڈالر بھارت منتقل کرنے پر تحقیقات کا آغاز
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کے خلاف مبینہ طور پر 4.9 ارب ڈالر کی رقم بھارت منتقل کرنے سے متعلق میڈیا پر آنے والی رپورٹس کا نوٹس لے لیا۔
نیب کے جاری بیان کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور دیگر کے خلاف مبینہ طور پر 4.9 ارب ڈالر کی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت منتقل کرنے سے متعلق رپورٹس کے حوالے سے تحقیقات کا حکم جاری کردیا۔
نیب کے مطابق چیئرمین نے منی لانڈرنگ کے ذریعے اربوں ڈالر کی بھارت منتقلی کی تحقیقات کا حکم میڈیا میں آنے والی رپورٹس کی روشنی میں لیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا
نیب کے جاری بیان کے مطابق میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ معاملے کی تفصیلات ورلڈ بینک کی مائیگریشن اینڈ ریمٹنس بک 2016 میں درج ہیں۔
ملک میں انسداد بد عنوانی کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے کا مزید کہنا تھا کہ اس اقدام سے بھارتی حکومت کے سرکاری خزانے میں 4.9 ارب ڈالر کی خطیر رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی گئی تھی۔
مذکورہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے تھے جبکہ پاکستان کو اس حوالے سے اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات کیس: نواز شریف پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار
خیال رہے کہ نیب نے اپنے جاری بیان میں مذکورہ خبر نشر کرنے والے میڈیا گروپس کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ کچھ ماہ سے نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو پاناما پیپرز لیکس کے باعث نیب کی تحقیقات کا سامنا رہا جبکہ احتساب عدالت میں ان کے خلاف مختلف ریفرنس بھی زیر سماعت ہیں۔
8 ستمبر 2017 کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز، صاحبزادی مریم صفدر، داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور سمدھی وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف 4 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے۔
پاناما انکشاف
پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب اپریل 2016 میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
مذکورہ انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد گزشتہ سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: شریف خاندان،اسحٰق ڈار کے خلاف 4 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر
جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔
جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 5 سماعتوں کے دوران فریقین کے دلائل سنے اور 21 جولائی کو پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
بعد ازاں 28 جولائی 2018 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے دے مستعفی ہوگئے تھے۔
علاوہ ازیں 21 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔