بھارت کا مثبت ہوتا رویہ؛ غلطی کا احساس یا نئی چال؟
چند لمحے پہلے ہی ٹی وی اسکرین پر مقبوضہ کشمیر میں ایک نوجوان کو بھارتی فوج کی گاڑی تلے کچلنے کی ویڈیو دیکھ کر کراچی ایوانِ تجارت و صنعت پہنچا جہاں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ بطورِ مہمان خصوصی مدعو تھے۔ مگر معلوم یہ ہوا کہ ایوان کے عہدیداران اور اجے بساریہ کے درمیان ہونے والی بات چیت میں میڈیا کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کی رپورٹنگ کرتے 15 سال ہوگئے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ میڈیا کو دعوت کے باوجود اجلاس میں داخلے سے روکا گیا اور تقریباً آدھے گھنٹے انتظار کرنے کے بعد میڈیا کو کانفرنس ہال میں داخلے کی اجازت ملی، لیکن اس وقت تک بھارتی ہائی کمشنر اپنا بیانیہ پیش کرچکے تھے اور کاروباری برادری کی جانب سے ویزہ کے حصول میں دشواریوں پر بات ہورہی تھی۔ بعض نے تو ہاتھ کے ہاتھ ویزہ کی درخواست بھارتی ہائی کمشنر کو پکڑا دی۔
میرے صحافتی سفر کا یہ تجربہ رہا ہے کہ جب بھی کسی بھارتی سفارت کار یا کسی بھارتی سیاسی رہنما سے ملاقات ہوئی تو اس کا رویہ ہمیشہ منفی اور پاکستان پر ہنٹر برسانے والا رہا ہے۔ چاہے وہ سفیر یا سیاستدان امن کی بات کرنے ہی پاکستان کیوں نا آیا ہو، اور جب سے بی جے پی کی مودی سرکار بھارت میں آئی ہے تب سے تو سفارت کاروں کا لہجہ تلخ ترین ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیے: 'مودی کے ہوتے پاک-بھارت تعلقات میں بہتری کی امید کم'
ایسے میں بھارت کے سابقہ ہائی کمشنر ٹی اے سی راگھوان کے ساتھ متعدد مرتبہ بات چیت کا اتفاق ہوا جو ہر بار پاکستان کو لعن طعن کرتے نظر آئے اور انہوں نے پاکستان پر نشتر چلانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ اگر بات پاکستان کی نہ بھی ہورہی ہو تب بھی راگھوان گھوما پھرا کر بات پاکستان پر لے آتے اور اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
اسی طرح راگھوان سے پہلے کے سفیروں کا بھی یہی رویہ دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ مگر ماضی کے برعکس اس مرتبہ تو کمال ہی ہوگیا۔ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر اجے بساریہ بظاہر نہ صرف بہت ہی نرم مزاج لگے بلکہ وہ پاکستان کے بارے میں روایتی تلخی سے بات کرنے سے بھی گریز کرتے رہے۔
کراچی ایوانِ تجارت و صنعت نے صحافیوں کو سوالات کرنے کے لئے محدود موقع فراہم کیا۔ لیکن اس کے باوجود اجے بساریہ سے جو بھی سوال کیا گیا انہوں نے سب کا جواب تحمل سے دیا۔ مثال کے طور پر بساریہ سے جو بھی سوال کیا جاتا تو اس کے شروع میں وہ کہتے کہ ہمیں باہمی تعلقات کے لئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا ہوں گے اور پھر دوسرے ہی سانس میں وہ مشورہ دیتے کہ دونوں ملکوں کو مثبت انداز میں بات چیت کرنی چاہیے۔
جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ کرکٹ سیریز کرکٹ کب کھیلی جائے گی؟ تو اجے بساریہ کا کہنا تھا کہ یہ بلین ڈالر سوال ہے، اگرچہ اس کا جواب میرے پاس نہیں لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ بہت جلد ہوگا۔ ہمیں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا ہوں گے اور اس عمل کو وہ مثبت طریقے سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
ماضی کے برعکس بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ بظاہر نہ صرف بہت ہی نرم مزاج لگے بلکہ وہ پاکستان کے بارے میں روایتی تلخی سے بات کرنے سے بھی گریز کرتے رہے۔
ان سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ پاکستان میں انتخابات سر پر ہیں اور حکومت کے خاتمے میں چند دن ہی رہ گئے اور آئندہ چند ہفتوں میں بھارت میں بھی انتخابی سرگرمی شروع ہوجائے گی تو ایسے عبوری دور میں بھارت کو تعلقات بہتر بنانے کا خیال کیوں آیا؟ کیوں انتخابات سے چند ماہ قبل ٹریک ٹو ڈپلومیسی شروع کی گئی ہے؟ کیوں نہ دونوں ملکوں میں عوام کی رائے کا انتظار کرلیا جائے؟
مزید پڑھیے: کیا بھارت واقعی پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کا خواہاں ہے؟
اس سوال پر بھارتی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو تعلقات آگے بڑھانے کے لئے انتخابی سائیکل کا قیدی نہیں بننا چاہیے اور ابھی یہی اسٹریٹجی ہے کہ چھوٹے چھوٹے اقدامات کیے جائیں اور ایسے مسائل پر توجہ دی جائے جن کو فوری طور پر حل کیا جاسکتا ہو۔ لیکن بھارتی ہائی کمشنر اس بات کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ اگر ایسی ہی بات تھی تو یہ کام گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں کیوں نہیں کیا گیا؟
اجے بساریہ کا کہنا تھا کہ امن کے لئے ہر چیز کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور سول سوسائٹی کی جانب سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز اچھی بات ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک ایسی لابی یا گروہ ہونا چاہیے جو حکومتوں کو مجبور کرے کہ وہ امن کی جانب آگے بڑھیں۔ اس حوالے سے کراچی کے تاجروں کو کہا ہے کہ وہ لابی بنائیں۔
بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے افراد کو حراساں کرنے کے معاملے پر اجے بساریہ کا کہنا تھا کہ سفارتی سطح پر بات چیت ہورہی ہے اور بھارت جینوا کنونشن اور پاک-بھارت 1992ء معاہدے کا پابند ہے۔ پاکستانی سفارت کاروں کو حراساں کرنے کا عمل ختم کریں گے۔ جس طرح شمالی اور جنوبی کوریا نے ہاتھ ملا لیا ہے، پاکستان اور بھارت کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ پڑوسیوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کا عمل روکنا نہیں چاہیے کیونکہ پڑوسیوں کے پاس بات چیت کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کی 70 سال کی تاریخ اور خصوصا سال 2002 کے بعد سے تبدیل ہونے والے حالات بتاتے ہیں کہ تعلقات مثبت اور منفی حلقے میں گردش کرتے رہے ہیں۔
بات چیت میں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ دہشت گردی جس سے ہمارے قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں، لیکن ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ ایسے معاملے میں اسٹریٹجک صبر کا مظاہرہ بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ تاریخ کا ہی سبق ہے کہ ایک کھڑکی ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔
اجے بساریہ سے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قائدِاعظم کی تصویر ہٹائے جانے اور دیگر موضوعات پر تابڑ توڑ سوالات ہوئے مگر ان تمام کا جواب وہ گول کرگئے اور بس یہی کہتے رہے کہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاو اور مثبت رویہ اختیار کرو۔
ذاتی خیال تو یہی ہے کہ اجے بساریہ کو پاکستان کو مثبت رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے بھارتیوں کو مثبت رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔ میں حیران تھا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ایک بھارتی سفیر پاکستان کے بارے میں اس قدر مثبت انداز میں بات کررہا ہے۔ اجے بساریہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کراچی ایک پُرامن شہر ہے اور میں دو مرتبہ یہاں آچکا ہوں۔
اپنی بات چیت میں اجے بساریہ نے لفظ اسٹریٹجک صبر کا استعمال کیا۔ مگر کیا یہ صبر بھارت نے اپنایا ہے یا پاکستان نے اس صبر کو اپناتے ہوئے بھارت کو سفارتی سطح پر رویہ نرم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ پاکستان نے سفارت کاری میں اسٹریٹجک صبر کا بہت مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ہمیشہ اتار چڑھاو آتے رہے ہیں۔ مذاکرات اور سیاسی قیادت کے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے کا عمل منقطع اور قائم ہوتا رہا ہے۔
بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کراچی ایک پُرامن شہر ہے اور میں دو مرتبہ یہاں آچکا ہوں۔
مگر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور دیرینہ مسائل کو حل کرنے موقع گنوادیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ دونوں طرف سے صحافی، سول سوسائٹی، تاجروں، صنعت کاروں کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر وفود کا تبادلہ بھی ہوا اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی نے کمپوزیٹ مذاکرات میں بہت سی رعایتیں بھی بھارت کو دیدی تھیں۔ جس میں سر کریک سے لے کر سیاچن تک سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کو دونوں طرف سے غیر فوجی علاقہ قرار دیا جانا تھا۔
اس بات کا مکمل احوال صدر مشرف کے وزیر خارجہ خورشید قصوری اپنی کتاب میں کرچکے ہیں اور سال 2007 میں وزیرِاعظم من موہن سنگھ کو معاہدے پر دستخط کے لیے پاکستان آنا تھا۔ مگر یہ دورہ ملتوی ہوا اور پاکستان میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد مستقل ہی منسوخ ہوگیا۔
آصف علی زرداری نے بھی صدر بنتے ہی انہی مذاکرات کا ذکر اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کرتے ہوئے اشارہ دیا تھا کہ وہ کمپوریٹ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ مگر ممبئی حملوں کے بعد یہ عمل بھی معطل ہوگیا۔
بھارت میں بی جے پی کی مودی سرکار اور پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہونے پر دونوں طرف سے کمپوزیٹ مذکرات کو ختم کرکے کمپری ہینسو مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح کمپوزیٹ مذاکرات میں طے پانے والے تمام امور ختم ہوگئے۔ نئے مذاکراتی عمل سے بھارت خود ہی بھاگ گیا اور موقف اپنایا کہ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی پاکستان سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
مزید پڑھیے: بھارت پاکستان پر حملے کا آغاز کرسکتا ہے، ماہرین کا خدشہ
بھارتی سفیر کا کہنا ہے کہ ہمیں باہمی مسائل کو حل کرنے کے لئے اسٹریٹجک صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ لیکن بھارتی سفیر کو شاید یہ نہیں پتہ تھا کہ پاکستان نے اسٹریٹجک صبر کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور سابق کمانڈر سدرن لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے جو پالیسی اپنائی وہ اسٹریٹجک صبر پر ہی مبنی تھی۔ بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مذاکرات کی بھیک نہیں مانگے گا۔ جب بھارت تیار ہوگا تب مذاکرات ہوں گے اور شاید یہی پاکستان کا اسٹریٹجک صبر تھا جس نے بھارت کے سفارتی لہجے کو نرم کردیا ہے۔
اس تحریر کا آغاز میں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم سے شروع کیا تھا۔ بھارت نے کشمیر میں ظلم کا ہر حربہ استعمال کرلیا ہے اور ظالم ہر روز ستم ڈھانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔ مگر ہر ظلم اور ہر ستم کے جواب میں کشمیری نہتے عوام زیادہ جوش اور جذبے سے ہتھیار بند فوج کے سامنے سینہ سپر ہورہے ہیں۔ بھارت میں اسلحے کا ڈھیر بھی کشمیریوں کے جذبہ جدوجہد آزادی کو دبانے سے قاصر نظر آتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت اس نرم خو سفارت کاری کے پردے میں پاکستان سے کچھ رعایت چاہتا ہے۔ جیسے کشمیر میں تحریک آزادی کو مشرف دور کی طرح روک لگانے کے علاوہ افغانستان تک براہِ راست رسائی کا مطالبہ شامل ہوسکتا ہے۔ لیکن پاکستان کو سفارتی سطح پر بھارت کے ساتھ بات چیت اور نرم لہجہ اختیار کرنے پر کسی فریب میں آنے کے بجائے سوچ سمجھ کر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، کیونکہ بدقسمتی سے ماضی کی یادیں بہت اچھی نہیں ہیں۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔