کیڑے مار ادویات کا بے تحاشہ استعمال، انسانی صحت کیلئے خطرناک
امریکی سائنسدان راچیل کارسن نے 1962 میں کیڑے مار ادویات کے انسانی صحت پر مضر اثرات پر ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا عنوان تھا ’سائلنٹ سپرنگ’، اس کتاب میں انہوں نے خاص طور پر ڈی ڈی ٹی اور ان ادویات کا تذکرہ کیا تھا جنہیں بڑے پیمانے پر کیڑے مارنے کے لیے اسپرے کی مد میں استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور 56 برس گزرنے کے باوجود کیڑے مار ادویات کے اندھا دھند استعمال سے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے سب سے معتبر مانی جاتی ہے، تاہم ڈی ڈی ٹی پابندی کے باوجود اب بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس حوالے سے 2 قانون موجود ہیں ایک ایگریکلچرل پیسٹیسائیڈز آرڈینینس 1971 اور دوسرا ایگریکلچر پیسٹیسائیڈ آرڈینینس رول 1973، پھر بھی پاکستان میں فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا بڑے پیمانے پر چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت:کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ کےدوران 20 کسان ہلاک
واضح رہے کہ ایک ریسرچ کے مطابق کیڑے مار ادویات کے اثرات صرف ان فصلوں تک محدود نہیں رہتے جہاں ان کا اسپرے کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور لینکیسٹر یونیورسٹی انگلینڈ کے اشتراک سے کی جانے والی ایک ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی کہ لاہور کے گردو نواح میں موجود گرد میں بھی کیڑے مار ادویات کے اثرات موجود ہیں، جو رہائیشیوں کی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال 30 لاکھ افراد کیڑے مار ادویات سے متاثر ہوتے ہیں جس میں سے تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اور یہ اموات زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں: چاولوں میں زہر کی موجودگی کے بارے میں جانتے ہیں؟
اس سلسلے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان مضر اثرات سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ایک بچے کی نشونما میں اس سے پیدا ہونے والے معمولی سے اثرات بھی مضر صحت ہیں، ہر سال تقریباً 4 لاکھ بچے کیڑے مار ادویات کو چھونے اور استعمال کرنے کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ڈی ڈی ٹی کا تعلق کیمائی مادوں کے آرگینو کلورین گروپ سے ہے جو فضا میں طویل عرصے تک موجود رہتا ہے، تاہم اس کی موجودگی کا عرصہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تحت مختلف ہوسکتا ہے جیسے کہ معتدل موسم کے مقابلے میں گرم موسم میں اس کے اثرات جلد ختم ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنگوں اور بیماریوں سے زیادہ ’آلودگی‘ سے ہلاکتیں
بڑے پیمانے پر کیڑے مار ادویات کے استعمال سے پانی کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ کیڑے مار ادویات کے زہریلے اثرات پانی کی صفائی کے روایتی طریقوں سے دور نہیں ہو پاتے۔
اس سلسلے میں ان زہریلی ادویات کی روک تھام انٹیگریٹڈ پیسٹ مینیجمنٹ (آئی پی ایم) کے معروف قانون کے تحت ہی ممکن ہیں جو اس مسئلے کے حل کے لیے مختلف طریقوں سے آگاہی فراہم کرتا ہے۔
یورپی یونین کی متعین کردہ تعریف کے مطابق انٹیگریٹڈ پیسٹ مینیجمنٹ ایک ایسا عمل ہے جس میں پودوں کے تحفظ کے لیے دستیاب تمام تر طریقوں سے پودوں میں نقصان دہ اجزاء کی افزائش روکنا، پودوں کے تحفط کے لیے ادویات کا استعمال، انسانی صحت پر اس کے اثرات، معیشت اور ماحولیاتی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا ہے۔
یہ رپورٹ ڈان کے ہفتہ وار شمارے ’دی بزنس اینڈ فنانس‘ میں 7 مئی 2018 میں شائع ہوئی