رئیل اسٹیٹ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کے امکانات
آئندہ مالی سال 19-2018 کے حوالے سے اعلان کردہ نئی ٹیکس اسکیم میں شامل رئیل اسٹیٹ سے متعلق اصلاحات کے ذریعے حکومت محصولات کی چوری اور غیر قانونی رقم جمع کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ماہرین کو حکومتی اسکیم کی کامیابی پر ابہام ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ حکومت اس اسکیم کی وجہ سے اپنے اہداف مکمل نہیں کر پائے گی۔
ماہرین کی رائے بھی مجوزہ اصلاحات کے اثر انداز ہونے کے حوالے سے تقسیم کا شکار ہے کیونکہ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اصلاحات بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے رقوم براہ راست اپنے گھروں پر بھیجنے سے روکیں گی۔
ان اصلاحات کی وجہ سے ٹیکس ادا نہ کرنے والے شخص کو اس کے غیر اعلانیہ اثاثوں کو معمولی ٹیکس ادا کرکے قانونی بنانے کا موقع مل جائے گا۔
آئندہ مالی سال کے آغاز سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سمیت جو بھی شخص ٹیکس دہندہ ہوگا، صرف وہی 40 لاکھ یا اس سے زائد کی جائیداد خریدنے کا مجاز ہوگا۔
مزید پڑھیں: 59 کھرب 32 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش
اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت نے ایڈجسٹ ایبل پراپرٹی ٹیکس کو کم کرکے جائیداد کی قیمت کا صرف ایک فیصد تک کردیا ہے۔
صوبوں کو سفارشات پیش کی گئیں ہیں کہ وہ جائیداد کا رجسٹریشن ٹیکس کم کرکے ایک فیصد تک کر دیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسٹیمپ ڈیوٹی، کیپیٹل ویلیو ٹیکس اور دیگر اخراجات کو ختم کردیں، جس کی وجہ سے ایڈجسٹ ایبل اور نان ایڈجسٹ ایبل ٹیکس کے بوجھ پر واضح ضرب لگ سکے گی۔
جائیدادوں کی ان کی حقیقی قیمتوں پر رجسٹریشن کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ایڈوانس انکم ٹیکس اور صوبائی ڈی سی کے تحت لاگو ٹیکس کو ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔
یہ اسکیم حکومت کو بااختیار بنائے گی کہ وہ جائیداد کی رجسٹریشن قیمت کا 100 فیصد ادا کرکے جائیداد حاصل کر سکے، لہٰذا اسی تناظر میں خیال کیا جارہا ہے کہ مالکان جائیداد کی خرید و فروخت کے وقت اس کی رجسٹریشن حقیقی قیمت کے 50 فیصد کے ساتھ کرائیں گے۔
ایسی جائیدادیں جو یکم جولائی 2019 کے بعد رجسٹرڈ کی جائیں گی، ان پر حکومت کو رجسٹریشن کی مد میں اصل قیمت کا 75 فیصد سے زائد ادا کرنے پر حصول کا اختیار ہوگا، اس کے علاوہ یکم جولائی 2020 کے بعد اس کی شرح کم ہوکر 50 فیصد تک آجائے گی، جبکہ مستقبل کے لیے شرح 50 فیصد ہی رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ‘تنخواہ دار ملازمین کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں‘
پالیسی سازوں کو امید ہے کہ یہ اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جائیدادیں اپنی حقیقی قیمت کے 67 فیصد تک رجسٹر ہوجائیں۔
خیال رہے کہ رئیل اسٹیٹ میں ٹیکس کے حوالے سے اسی طرح کے اقدامات پڑوسی ملک بھارت میں بھی کیے گئے تھے۔
رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والی ایک کمپنی کے عہدیدار نے حکومت کی نئی اسکیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی مدد سے رئیل اسٹیٹ میں ایک نیا انقلاب آئے گا جو معیشت کو دستاویزات کی صورت میں لانے، پاکستان میں قانونی جائیدادیں بنانے اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری میں مدد فراہم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ کئی لوگ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے، حتیٰ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آئندہ مالی سال کے آغاز سے قبل ہی ٹرانزیکشنز میں اضافہ ہوگیا کیونکہ لوگ اس تبدیلی کی وجہ سے خوفزدہ ہیں اور نئے قوانین کے نافذ ہونے سے قبل رئیل اسٹیٹ میں داخل ہونے کو ترجیح دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جو ٹیکس دہندہ نہیں بننا چاہتے وہ 40 لاکھ سے کم قیمت کی جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے جائیں گے لیکن ان کے پاس بہت کم مواقع ہوں گے۔
مزید پڑھیں: ’حکومت معاشی اصلاحات میں کامیاب، اداروں کی نجکاری میں ناکام‘
انہوں نے کہا کہ اب جائیداد کی موجودہ قیمتوں میں تبدیلی نظر آئے گی جو غیر قانونی رقم اور ٹیکس کی چوری کی وجہ سے اس وقت اپنی حقیقی قیمتوں سے کئی زیادہ ہیں۔
چھوٹی اور سستی جائیدادوں کی قیمتیں مستحکم رہیں گی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی قیمتوں میں کچھ بہتری آئے گی، تاہم امید ہے کہ لوگ اس نئی اسکیم سے جلد آشنا ہوجائیں گے جبکہ سرمایہ کار آسان اور وضع کردہ ٹیکس نظام کی مدد سے کاروبار کرنے میں اطمینان کا اظہار کریں گے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو ان کے ٹیکسز کم کرکے ایک فیصد تک کرنے کے حوالے سے رضامند نہیں کر پائے گی، جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کی اس اسکیم کی کامیابی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
کالے دھن کو سفید کرنے کے خلاف پراپرٹی ٹیکس اصلاحات مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے کوئی پہلا اقدام نہیں ہے، اس سے قبل بھی اس ضمن میں اقدامات کیے گئے لیکن ان میں سے کسی میں بھی کامیابی نہیں ملی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری شخص نے حکومتی اسکیم پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسکیم ایک ٹیکس ادا نہ کرنے والے شخص کو ٹیکس نیٹ میں داخل ہونے پر مجبور کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کے بجٹ پر ماہرین کی آراء
انہوں نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ نئی اصلاحات کی وجہ سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں نمایاں حد تک کمی آئے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 20 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر میں سے ہر سال تقریباً آدھی رقوم پاکستان میں رئیل اسٹیٹ میں لگائی جاتی ہیں، لہٰذا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کیوں اپنی رقوم پاکستان بھیجے گے اور خود کو ٹیکس نیٹ کا حصہ بنا کر اپنے لیے ہی پریشانی کھڑی کرے گے؟
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی درآمدات کو تباہ کرنے کے بعد موجودہ حکومت اب ترسیلاتِ زر کے پیچھے لگ گئی ہے جس کے بعد آئندہ برس پاکستان بھیجی گئی ترسیلات میں بھی نمایاں حد تک کمی واقع ہوگی۔
یہ خبر ڈان اخبار کے دی بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں 7 مئی 2018 کو شائع ہوئی