پاکستان

عدلیہ مخالف تقاریر:(ن) لیگ کےکارکنان کے نام’ای سی ایل‘میں ڈالنے کا حکم

لاہور ہائیکورٹ نے قصور پولیس کو سائبر کرائم کی دفعات کی اطلاق کی صورت میں کیسز کو ایف آئی اے کے سپرد کرنےکا بھی حکم دیا۔

لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ قصور میں نکالی گئی ریلی میں مبینہ طور پر عدلیہ مخالف بیانات پر وزارت داخلہ کو رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سمیت مسلم لیگ (ن) کے 6 اراکین کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔

اپریل میں پولیس نے مسلم لیگ (ن) کے 80 کارکنان نے خلاف مقدمات درج کیے تھے، جن میں سے 6 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہل قرار دینے کے فیصلے کے خلاف مبینہ طور پر مظاہرہ کرنے اور عدلیہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کے مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔

اگرچہ ان کی یہ تقاریر ٹیلی وژن پر نشر نہیں کی گئیں تاہم ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن سے تقاریر کرنے والوں کی شناخت کی گئی۔

پولیس نے ملزمان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جبکہ کئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت طلب

جسٹس سید مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے پراسیکیوشن سے سوال کیا کہ ملزمان کے خلاف مقدمے میں سائبر کرائم کی دفعات کیوں شامل نہیں کی گئیں۔

بینچ نے قصور کے ضلعی پولیس افسر کو حکم دیا کہ وہ کیسز کی نگرانی کریں اور اگر سائبر کرائم کی دفعات کا اطلاق ہوسکتا ہو تو کیسز کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سپرد کریں۔

سماعت کے دوران رکن قومی اسمبلی وسیم اختر، رکن صوبائی اسمبلی نعیم صفدر، قصور میونسپل کمیٹی کے چیئرمین ایاز خان اور نائب چیئرمین احمد لطیف کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ دو یونین کونسلوں کے چیئرمین ناصر خان اور جمیل خان، جو مبینہ طور پر ریلی کی قیادت کر رہے تھے، واقعے کے بعد سے مفرور ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: لاہور ہائیکورٹ کا فل بینچ دوبارہ تشکیل

سوشل میڈیا پر ’عدلیہ مخالف‘ مواد پر پابندی کی درخواست

ہائی کورٹ کے اسی بینچ نے سوشل میڈیا پر ’عدلیہ مخالف‘ مواد پوسٹ کرنے پر پابندی کی الگ درخواست کی بھی سماعت کی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو معاملے پر جوابات جمع کرانے کا حکم کیا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالت کی جانب سے عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد سے چند افراد ایسا مواد پوسٹ کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔