پاکستان

صحافیوں پر پولیس کا تشدد: سپریم کورٹ کا جوڈیشل انکوائری کا حکم

ریڈ زون میں کس قانون کے تحت احتجاج کی اجازت نہیں اور ریڈ زون میں کس کو احتجاج کی اجازت ہے؟ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
| |

سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں صحافیوں پر پولیس تشدد کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے صحافیوں پر تشدد سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے نمائندے پرویز شوکت اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس بھی پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز عالمی یوم آزادی صحافت پر اسلام آباد میں صحافیوں کی جانب سے نکالی گئی ریلی پر پولیس نے تشدد کیا تھا، جس میں متعدد صحافی زخمی ہوگئے تھے، اس واقعے کے بعد چیف جسٹس نے معاملے کا نوٹس لیا تھا۔

دوران سماعت پرویز شوکت نے عدالت کو بتایا کہ ہر سال تین مئی کو آزادی صحافت کا دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، اسی سلسلے میں آزادی صحافت کے دن ریلی نکالی گئی تھی تو پولیس نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔

مزید پڑھیں: دنیا بھر کے صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرنے پر مجبور

انہوں نے کہا کہ پولیس نے صحافیوں پر تشدد کیا جبکہ صحافی پُرامن شہری ہیں اور قانون اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ واقعے پر عدلیہ کے نوٹس لینے پر ہمیں خوشی ہوئی۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ریاست کا چوتھا ستون ہیں، پولیس کا موقف یہ ہوگا کہ ریڈ زون میں جانے کی اجازت نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحافیوں کے پاس کوئی لاٹھی تو نہیں تھی اور ریڈ زون میں کس قانون کے تحت احتجاج کی اجازت نہیں ہے؟ اور ریڈ زون میں کس کو احتجاج کی اجازت ہے؟

اس پر آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے اور ریلی کے لیے این او سی لینا ایک قانونی تقاضہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں کب سے دفعہ 144 نافذ ہے، جس پر ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ یہ 2014 سے یہاں نافذ ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کتنے عرصے کے لیے اس دفعہ کا نفاذ ہوسکتا ہے؟

دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دفعہ 144 کا نفاذ کسی سیکیورٹی خطرے کی صورت میں ہوسکتا ہے، کیا صبح 5 لوگ ایک ساتھ واک کر رہے ہوں تو انہیں بھی پکڑ لیا جائے گا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکام کو اپنے اختیارات کے غلط استعمال کا حق نہیں، اس پر آئی جی نے بتایا کہ محکمہ پولیس، صحافیوں کی عزت کرتا ہے، پولیس نے صحافیوں کو ریڈ زون میں جانے سے منع کیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صحافیوں نے پتھر پھینک کے کوئی گملا توڑا، جس پر آئی جی پولیس نے بتایا کہ صحافیوں نے ڈی چوک پر پولیس حصار توڑنے کی کوشش کی۔

دوران سماعت عدالت میں موجود ایک صحافی شکیل قرار نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر نے ہمیں ڈی چوک تک جانے کی اجازت دی تھی لیکن ڈی چوک پر پہنچنے سے پہلے ہی ہمیں چائنا چوک پر زبردستی روک لیا گیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صحافیوں کا احتجاج پُرامن تھا اور پُرامن احتجاج یا خواتین پر ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں، معلوم نہیں بہنوں کا احترام کدھر چلا گیا؟

یہ بھی پڑھیں: میڈیا پر پابندی کے خلاف صحافیوں کے پٹیشن پر دستخط

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ دنیا میں لوگ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہیں، مقامی انتظامیہ دفعہ 144 نافذ کرکے بھول گئی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ تاحیات دفعہ 144 کا نفاذ کردی جائے۔

اس موقع پر عدالت نے اسلام آباد میں صحافیوں پر تشدد کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیشن جج سہیل ناصر واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرکے 10 روز میں رپورٹ جمع کروائیں۔

دوسری جانب سینیٹ اجلاس میں بھی صحافیوں پر تشدد کا معاملہ زیر غور رہا اور اراکین سینٹ کی جانب سے میڈیا پر پابندی اور صحافیوں پر تشدد کی مذمت کی گئی۔

سینیٹ ارکان کی صحافیوں پر تشدد کی مذمت

علاوہ ازیں سینیٹ اجلاس میں ارکان نے خبروں اور مضامین کو شائع کرنے سے روکنے کی مذمت کی، اس حوالے سے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ خبروں اور مضامین کو شائع ہونے سے روکا جا رہا ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ کیا خبروں اور مضامین کو شائع ہونے سے روکنے کا کوئی قانون موجود ہے، ہم نے کالے قانون کے خلاف جدوجہد کی ہے، بتایا جائے کہ کس قانون کے تحت یہ پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر خبروں کو روکنے کا کوئی قانون موجود ہے تو بتایا جائے، اسے ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔

اجلاس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ صحافیوں پر تشدد کا واقعہ افسوسناک ہے، اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کی آواز اور جمہوری آوازوں کو گوںگا کیا جا رہا ہے جبکہ اخباروں اور ٹی وی چینلز کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ 3 مرتبہ وزیراعظم رہنے والے شخص کی آواز کو بھی دبایا جارہا ہے اور اگر سمجھوتے والی جمہوریت رہی تو ملک میں ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں: صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان کا 139واں نمبر

سینیٹ اجلاس کے دوران رکن سینیٹ عثمان کاکڑ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا پر مارشل لاء جیسے حالات پیدا کردیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اینکرز کو بعض شخصیات کو پروگرام میں مدعوہ نہ کرنے کا کہا جاتا ہے، پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک کو میڈیا پر دکھایا جائے اور اسے برداشت کیا جائے۔

عثمان کاکڑ نے کہا کہ پی ٹی ایم نے متعدد جلسے کیے لیکن کسی میڈیا پر نہیں دکھایا گیا جبکہ غیر جمہوری قوتوں نے اسے سوشل میڈیا پر بھی بند کردیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ میڈیا پر غیر اعلانہ سینسر شپ کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔