لکھاری پشاور میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
کابل کے صدر علاقے میں پیر کے روز دہرے خود کش حملے نے ایک بار پھر اس خونی چیلنج کو آشکار کردیا ہے جس کا سامنا افغان صحافی گزشتہ 17 سالوں سے کر رہے ہیں۔ اس حملے میں 40 افراد بشمول 9 میڈیا کارکنان ہلاک ہوئے، جس کی ذمہ داری جنگجو گروہ دولتِ اسلامیہ نے قبول کی۔
2001ء میں افغان طالبان کی حکومت گرائے جانے سے اب تک یہ افغانستان میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک دن تھا۔ کابل میں کُل 9 رپورٹر، فوٹوگرافر اور کیمرا مین ہلاک ہوئے جبکہ دسویں کو صوبہ خوست میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ گزشتہ ہفتے جنوبی شہر قندھار میں بھی ایک رپورٹر کو ایسے ہی حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
پریس جیکٹ میں ملبوس اور کیمرا اٹھائے ہوئے بمبار نے ششدرک کے ہائی سیکیورٹی علاقے میں اُس وقت خود کو اُڑا یا جب وہاں موجود صحافی پہلے دھماکے کی کوریج میں مصروفت تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں نیٹو ہیڈکوارٹر، کئی سفارتخانے اور بین الاقوامی این جی اوز کے دفاتر بھی ہیں۔
پڑھیے: افغانستان میں 3 دھماکے، طلبہ، صحافیوں سمیت 40 افراد ہلاک
بلاشبہ صحافیوں کو چُن چُن کر ایک ایسے ملک میں نشانہ بنایا جارہا ہے جہاں صحت اور ایمرجنسی خدمات فراہم کرنے والوں پر بھی حالیہ سالوں میں حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ مگر افغان سیکیورٹی فورسز اور ان کے بین الاقوامی شراکت دار انسانی ہمدردی کے کارکنان کو بھی محفوظ رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔
دہشتگردوں، جنگجو سرداروں اور حکومتی شخصیات کی دھمکیوں سے ڈرے بغیر صحافیوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے زبردست وفاداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انسانی حقوق، صنفی توازن، جمہوریت اور مسلح تنازعات کی وجہ سے جنم لینے والی ناقابلِ بیان مشکلات کو اجاگر کرنے میں ان کے کردار پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے۔
اب کیوں کہ دنیا بھر کے زیادہ تر صحافتی اداروں نے افغانستان سے اپنا اسٹاف واپس بلوا لیا ہے، تو یہ افغان صحافی ہی ہیں جو دنیا تک افغانوں کی مشکلات، وہاں موجود سماجی ناانصافیاں اور جنگ سے ہونے والی ہلاکت خیزی سامنے لا رہے ہیں۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے میگا کرپشن، بین الاقوامی امداد میں خرد برد اور ایسے ہی دیگر معاملات پر رپورٹنگ کرنے میں دباؤ کا مقابلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ اظہارِ آزادی پر اس بدترین حملے کے باوجود یہ مزاحمت جاری رہے گی۔ مگر کچھ بھی ہو، آزاد میڈیا کے لیے ان تجربہ کار پروفیشنلز کے نقصان سے فوری طور پر نکلنا ممکن نہیں ہوگا۔
کئی میڈیا کمپنیوں کے منافعوں میں ہر گزرتے سال کے ساتھ کمی آتی جا رہی ہے۔ غیر ملکی امداد نہ ملنے کے سبب کئی میڈیا ہاؤس پہلے ہی بند ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے بیشتر صحافی بیروزگار ہیں۔ جو لوگ نوکریوں پر ہیں، وہ انتہائی مشکل ماحول، کم تنخواہوں اور ملازمت کے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس سب کے بعد انہیں دہشتگردوں اور طاقتور افراد کی دھمکیوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جو اپنے غلط کاموں کے باوجود احتساب سے بالاتر ہیں۔
پڑھیے: تمام تر دشواریوں کے باوجود افغانستان کا یادگار سفر
معقول تنخواہیں پانے والے اپنے مغربی ہم منصبوں اور تربیت کاروں کے برعکس زیادہ تر مقامی میڈیا کارکنان بڑے بڑے خاندانوں کے واحد کمانے والے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی موت یا معذوری کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم اور ان کے رشتے دار بنیادی سہولیات سے محروم ہوجاتے ہیں۔
کئی جنگ زدہ صوبے واقعتاً غیر ملکی میڈیا کارکنان کے لیے نوگو ایریاز بن چکے ہیں۔ افغان میڈیا کارکنان معلومات کی اس خلیج کو پُر کر رہے ہیں اور پھیلے ہوئے دیہی علاقوں کے حقائق جاننے میں اپنے بین الاقوامی ساتھیوں کی مدد کرتے ہیں۔
حقائق جاننے کی کوشش میں افغانستان میں صرف سال 2017ء کے دوران 21 صحافی ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر ٹارگٹڈ حملوں کا نشانہ بنے۔ اپنے مواد کی وجہ سے پژواک افغان نیوز، دی موبی گروپ، بیسیوں ٹی وی چینل اور 170 سے زائد ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز معیار اور اعتبار کی علامت بن چکے ہیں۔
بھلے ہی صدر اشرف غنی کی انتظامیہ نے حکومتی اداروں کو میڈیا کو معلومات تک زیادہ رسائی دینے کے احکامات دیے ہیں، مگر پھر بھی صحافیوں کے خلاف تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ زیادہ تر واقعات میں ملوث افراد بچ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں سیلف سینسرشپ، یعنی اپنی آواز خود ہی دبا لینا عام ہے، چنانچہ یہ بین الاقوامی ادارے پریس سانز فرنٹیئرز کے پریس فریڈم انڈیکس میں 118ویں نمبر پر ہے۔
پڑھیے: انگریزوں کا افغانستان
صحافیوں اور سول سوسائٹی کارکنوں کو افغانستان میں بہتر تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ میڈیا کے تحفظ کے قوانین مضبوط کرنے کے لیے حکومت کو اپنے افسران کو ان آزاد صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روکنا ہوگا جو قوم کی آنکھیں اور کان کے طور پر پہچانے جانے لگے ہیں۔
کابل میں اس سال 10 شدید دھماکوں میں بیسیوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زیادہ تر دھماکوں کی ذمہ داری دولتِ اسلامیہ اور افغان طالبان نے قبول کی ہے۔ بڑھتی ہوئی خون ریزی سے امریکا اور افغان فوجیوں کے وسیع پیمانے پر ہونے والے آپریشنز کے بے فائدہ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی دوران موت اور تباہی کا یہ جاری سلسلہ امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن کے بیان 'کوئی غلطی پر نہ رہے؛ افغانستان کے دشمن جیت نہیں سکتے' سے متضاد ہے۔
کابل میں ووٹر رجسٹریشن سینٹر اور قندھار کے ضلع دمان میں نیٹو سپاہیوں پر حملہ بھی سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی علامت ہے۔ اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے آتے آتے حالات شاید مزید خراب ہوں کیوں کہ افغان سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں 11 فیصد کمی آئی ہے۔
چنانچہ صحافی اور دوسرے لوگ مزید حملوں کے خطرے میں رہیں گے۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 مئی 2018 کو شائع ہوا۔