پاکستان

عدالتوں میں زیر التوا سیکڑوں مقدمات، واجبات کی وصولی میں رکاوٹ

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نےایف بی آر کووصولی میں رکاوٹ بننےوالے زیرالتوا مقدمات سےمتعلق سپریم کورٹ کو خط لکھنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے واجبات کی وصولی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے لاتعداد زیر التوا مقدمات پر فیصلے جاری کرنے کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین خورشید احمد شاہ کو ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ 55 ارب 73 کروڑ روپے کے واجبات کی وصولی عدالتوں میں زیر سماعت 6 سو 95 کیسز کے باعث التوا کا شکار ہے، جس پر انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

آڈیٹر جنرل کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پی اے سی کو بتایا گیا کہ 55 ارب 73 کروڑ روپے، کل رقم کا محض 10 فیصد ہے، جو ایف بی آر عدالتوں میں زیر التوا کے باعث وصول نہیں کر سکی، جس پر خورشید احمد شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اس کا مطلب کل رقم تقریبا 50 کھرب ہے۔

یہ بھی پڑھیں: واجبات کی ادائیگی کا تنازع: ایف پی سی سی آئی کا حکومت کو انتباہ

اس موقع پر خورشید شاہ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سیکریٹریٹ کو ہدایت کی کہ وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو خط لکھ کر اس صورتحال سے آگاہ کریں کیونکہ وہ ان کیسز کے باعث واجبات کی وصولی میں بننے والی رکاوٹ دور کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید ہدایت دیتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سیکریٹری کو آڈیٹر جنرل سے ان واجبات کی تفصیلات حاصل کر کے خط کے ہمراہ بھیجنے کو بھی کہا، جو عدالتی مقدمات کے باعث اب تک وصول نہیں کیے جاسکے۔

اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ خط میں واضح طور پر بتایا جائے کہ عدالتوں کی جانب سے ریونیو کلیکشن کے مقدمات میں حکم امتناع ایف بی آر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مفلوج کر دیتا ہے اور وہ اس ضمن میں مزید کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر ٹیکس اصلاحات کے نفاذ میں بڑی رکاوٹ بن گیا

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے زیر التوا مقدمات کو ختم کرنے میں دلچسپی ظاہر کرنے پر انہیں خوشی ہوئی، انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا، ان کا مزید کہنا تھا کہ 50 کھرب روپے کی وصولی نہ صرف معیشت کو دوام بخشے گی بلکہ یہ قوم کی بہترین خدمت ہوگی۔

اس موقع پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے آڈیٹر جنرل کے عہدیداروں نے بتایا کہ 6 سو 95 مقدمات میں کئی بااثر شخصیات کے مقدمات بھی شامل ہیں جن پر حکم امتناع جاری کیا گیا اور اس سے 55 ارب روپے کے واجبات 2013 سے زیر التوا ہیں۔

اس پر خورشید شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس رقم کا تعلق ملک کی معیشت سے ہے، عدالتوں کو اس بات کا احساس کرتے ہوئے ان مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔

جس پرآڈیٹر جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ سپریم کورٹ مذکورہ معاملے کا پہلے ہی نوٹس لے چکی ہے، خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے اس معاملے کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کا ہر دوسرا پیراگراف اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ حکم امتناع کے سبب وصولی نہیں ہوسکی۔

یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تمام ’ٹیسٹنگ سروسز‘ پر پابندی کی سفارش

اس موقع پر سینیٹر اعظم سواتی نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھے جانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

آڈیٹر جنرل کی جانب سے کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ نیشنل لاجسٹک سیل (این سی ایل) نے ایم ایس حبیب کنسٹرکشن سے 24 کروڑ 5 لاکھ رقم ٹیکس کی مد میں وصول کی تاہم یہ رقم قومی خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی۔

ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا نے کمیٹی کو بتایا کہ اس سلسلے میں این ایل سی کو متعدد نوٹسز جاری کیے جاچکے ہیں لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے بعد این ایل سی کے ترجمان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حبیب کنسٹرکشن سے ٹیکس کی مد میں وصول کیے گئے 24 کروڑ 5 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرائے جاچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آڈیٹر جنرل کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ پرانی ہے، جس سے این ایل سی کے نادہندہ ہونے کی غلط فہمی پیدا ہورہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ این ایل سی پر کوئی ٹیکس واجب الادا نہیں بلکہ 5 کروڑ روپے پیشگی ٹیکس کے طور پر ایف بی آر کو دیئے جاچکے ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 4 مئی 2018 کو شائع ہوئی