نقطہ نظر

ایک اخبار نویس کا المیہ (دوسرا حصہ)

کیا آپ نے کبھی اہلِ صحافت کے مسائل کے بارے میں سوچا ہے؟ ایک عام صحافی کس حال میں زندگی گزارتا ہے؟

بلاگ کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں۔


بس انہیں کسی طرح دنیا کی کوئی پوری، ادھوری، جھوٹی، سچی ’خبر‘ ہاتھ لگ جائے، پھر دیکھیے صحافیوں کے خلاف کیسا واویلا مچاتے ہیں، حالانکہ بعض اوقات یہ ایک مستند خبر ہوتی ہے، جو کسی اور صحافی ہی نے کسی طرح سے قارئین، سامعین یا ناظرین تک پہنچا دی ہوتی ہے، مگر اُسے بھول کر وہ ’غدار‘ صحافیوں کے خلاف دشنام طرازی کا محاذ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔

اہلِ صحافت دیگر لوگوں سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ روزانہ کس طرح سے خبریں اوپر نیچے اور دائیں بائیں ہوجاتی ہیں، یا کرنی پڑجاتی ہیں، مگر وہ ذرائع ابلاغ کے کٹھن نظام میں پھنسے ہوئے مجبور و بے کس فرد ہوتے ہیں کہ بعض اوقات اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں میں اُس کا اظہار تک نہیں کرپاتے، مگر جب ’گروہ اول‘ کے حوالے سے کوئی خبر اُن کی منشا کے مطابق جگہ نہ پائے تو وہ ہمیں جی بھر کر مطعون کرتے ہیں، یہاں تک کہ بددعاؤں پر اتر آتے ہیں۔

اس سے اگلے دن ویسی ہی ایک خبر ’گروہ دوم‘ کی بھی کچل دی جاتی ہے، مگر ’گروہ اول‘ کی جانب سے اطمینان بخش سناٹا ہوتا ہے۔ تیسرے روز ہی ’گروہ دوم‘ کی خبر میں شرم ناک طریقے سے اُس کی بھد اڑائی جاتی ہے۔ ’گروہ اول‘ ’غدار صحافیوں‘ کی ان حرکتوں سے جی بھر کے لُطف اندوز ہوتا ہے اور جی کھول کر واہ واہ کے ڈونگرے برساتا ہے، کہ وہ کالم یا پروگرام اخلاقیات اور اصول سے پرے، مگر ان کی سوچ کی تائید میں جو ہوتا ہے۔

ذاتی، بے منطقی اور فضول خیالات کو خبری حقائق کے ساتھ خلط ملط کرنا، چادر اور چار دیواریوں کو پامال کرتی ہوئی چھاپا مار کارروائیاں، ذاتیات پر مبنی بے بنیاد لغو باتیں بہت پسند کی جاتی ہیں، اور پھر جہاں مرضی کی بات نہ ہو تو اپنے پیشے کا حق ادا کرنے کے لیے کوشاں لوگوں کو صحافتی اخلاقیات کے بھاشن دیے جاتے ہیں۔

پڑھیے: ایسے ایسے سوالات

بے فکری سے انگلیوں کے اشاروں پر اپنے اسمارٹ فون اور ٹی وی ریموٹ سے کھیلنے والے نہیں سمجھتے کہ خبر کس طرح پہنچائی جاتی ہے۔ بے امنی اور سخت ترین حالات میں جب ساری دنیا جلد سے جلد اپنے گھر پہنچ کر امان چاہتی ہے، یہی صحافی انہیں خبر پہنچانے کے لیے گھر اور دفتر سے باہر نکل رہا ہوتا ہے، اپنے پیشہ ورانہ ذمے داری ادا کرتے ہوئے انہیں تازہ حقائق پہنچاتا ہے اور خبردار کرتا ہے اور کس طرح ہمہ قسم کی دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھتا ہے۔ پھر سماج میں جب ظلم ہوتا ہے تو یہی قلم اور یہی کیمرے آپ کی آواز اٹھاتے ہیں، ہم لاکھ بُرے سہی، مگر آج بھی عوام الناس اپنے مسائل کے حل کے لیے امید بھری نظروں سے صحافیوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں!

رہی بات کالی بھیڑوں کی تو اچھے بُرے کس شعبے میں نہیں؟ عام قارئین اور ناظرین سے زیادہ اخباری کارکنان اپنے ہم پیشہ لوگوں کی غفلتوں اور کالے کرتوتوں کی خبر رکھتے ہیں۔ قارئین جس ’خبر‘ کے عکس لے لے کر دنیا جہاں میں پھیلا رہے ہوتے ہیں، اس کی اشاعت کا مقصد کسے فائدہ اور نقصان پہنچانا تھا، ہم لوگ اس کی بھی ’خبر‘ رکھتے ہیں۔ ہماری ’کالی بھیڑیں‘ بہت سے سچ بے فائدہ نہیں بولتے، ان کے بہت سے سچ ادھورے اور بہت سی سچائیاں صرف مخالفین کے لیے ہوتی ہیں۔

ہم صحافی ہر خبر کے پیچھے دور تلک کی موقع پرستی، مفاد پرستی اور غفلت تاڑے ہوئے ہوتے ہیں، مگر کیا کیجیے صاحب، جب ’میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ کرنے والے کسی کرم فرما کو راہ نمائی کی غرض سے ٹہوکا لگاؤ تو مجال ہے کہ وہ اصل کہانی پر کان دھرے کہ ہم اس کے من پسند اخبار، چینل یا صحافی کی طرح بلند آہنگ اور چٹخارے دار باتیں جو نہیں کر رہے ہوتے۔ بھلا وہ کس طرح ’مخالف سچ‘ کے برعکس خبری زبان اور صحافی حدود و قیود کا بھاشن سنے۔

پڑھیے: صحافی اور مکینک میں فرق

یہ بے فکرے، اہلِ صحافت سے تنقید سیکھتے ہیں اور پھر یہ ہنر بھونڈے طریقے سے انہی پر آزماتے ہیں، جو طاقتوروں سے سوال پوچھ کر پورے سماج کا فرض کفایہ ادا کرتے ہیں، انہیں بے تکی پرخاش پر لعنت ملامت کی جاتی ہے، بکاؤ مال اور رشوت خور کہہ دیا جاتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اگر یہ نہ بولے تو پھر آخر کون بولے گا؟

’سماجی ذرائع ابلاغ‘ (سوشل میڈیا) کے زمانے میں تو جتنی سہولت سب کچھ کہنے اور دکھانے کی ہوگئی ہے، اس سے زیادہ مشکل تو ان کے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا ہے۔ اب تو ہر ہاتھ میں قلم اور کیمرہ ہے، جو چاہے لکھ دو، جو چاہو دکھا دو، کوئی روکنے والا نہیں، مادر پدر آزاد پروپیگنڈے اور اخلاقیات کے یہ نمونے بتا دیتے ہیں کہ ہمارا سماج پستی کے کس درجے پر ہے۔

جھوٹ اور غلط بیانی میں صبح و شام کرنے والے اپنے تمام صحافیوں کو بالکل فرشتہ دیکھنا چاہتے ہیں، سماجی ادارے تو سماج کا ہی عکس ہوتے ہیں، پھر یہ انہیں ذرا سی بھی ’مصلحت‘ کی گنجائش دینے کے روادار نہیں، بقول انشا:

حق اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور بھی اچھا

اس لیے اپنے محفوظ ترین ’9 سے 5‘ کے کام دھندے نمٹا کر ٹانگیں پسار کر اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھیے اور جن صحافیوں کی مشقت سے دنیا جہاں کی آگاہی لیجیے، انہیں ہی جی بھر کر کوسنے دے کر ٹھٹھے لگائیے۔ بے شک صحافی اپنے کام کی تنخواہ لے رہا ہے، مگر تنخواہ تو سماج کا ہر آدمی لے رہا ہے، یہ دیکھیے کہ پیسے لے کر وہ اپنا کام کس قدر دیانت داری سے کر رہا ہے اور کیا واقعی وہ ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی واقعے کے جواز میں آپ کی گالیوں، طعنوں اور سنگین الزامات کا مستحق ہے؟

کیا آپ نے کبھی اہلِ صحافت کے مسائل کے بارے میں سوچا ہے؟ ایک عام صحافی کس حال میں زندگی گزارتا ہے؟ اور بالخصوص وہ جو ایک عزم اور ذمے داری لیے اس پیشے میں داخل ہوا ہے؟

نہیں ناں، یہ ناشتے میں چائے کی چسکیوں کے ساتھ گھر کی دہلیز پر ملنے والے اخبار سے دوبالا کرنے والا کہاں سمجھ سکتا ہے کہ یہ وہ اخبار نویس ہیں جو دنیا جہاں کے مسائل کے لیے تو دوڑے دوڑے پھرتے ہیں مگر جب ان پر بنتی ہے تو اس کی ایک سطری خبر تک نہیں آتی۔ آخر یہ کہاں جا کر اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائیں؟

ہے کوئی ان المیوں کا جواب؟

رضوان طاہر مبین

بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔