ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت
ان ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اسلحے جتنی اہم سفارتی حکمتِ عملی بھی ہے۔
پہلی حکمتِ عملی
اس حکمتِ عملی کا اولین عنصر ہونا چاہیے کہ چین یہاں دیے گئے تمام ایٹمی اور اسٹریٹجک چیلنجز پر پاکستان کی پالیسی اور مؤقف کی حمایت کرے۔ چین کی مدد کے بغیر، بالخصوص سلامتی کونسل میں پاکستان کو 'مجرم' ٹھہرا دیا جائے گا اور یہ شمالی کوریا جیسی صورتحال کو پہنچ سکتا ہے۔
دوسری حکمتِ عملی
پاکستان کو ہندوستان کے سامنے ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی دوڑ محدود کرنے کے لیے کئی قابلِ بھروسہ تجاویز رکھنی چاہیئں جن پر دونوں ممالک مشترکہ طور پر عمل کریں۔ ان میں فوجیوں کی نقل و حرکت کا مکمل شفاف ہونا، فوجی مشقوں کے سائز پر حدود، ایسے علاقوں کی نشاندہی جہاں طاقت کا استعمال ممنوع ہو، اور ایسے علاقے جہاں طاقت کا صرف محدود استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایٹمی وارہیڈز اور ڈیلیوری سسٹمز کی تعداد کی حد کا باہمی رضامندی سے تعین اور اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹمز پر پابندی کا دو طرفہ سمجھوتا بھی کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کے لیے آزمائش کا دور، لیکن ...
یہ تجاویز دو طرفہ طور پر ہندوستان کے سامنے بین الاقوامی فورمز بشمول سلامتی کونسل کے ذریعے رکھی جاسکتی ہیں یا امریکا سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اتحادی تک یہ تجاویز پہنچا دے۔
اس طرح کا اقدام تنازعات سے بچنے اور جنوبی ایشیاء میں اسٹریٹجک استحکام کے لیے پاکستانی دیانتداری کا مظہر ہوگا، جبکہ یہ ہندوستانی اور امریکی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف عوام میں پھیلائے گئے منفی تاثرات کو بھی زائل کرے گا۔
تیسری حکمتِ عملی
پاکستان کو اسلحے میں تخفیف کے بین الاقوامی فورمز میں چھوٹی اور درمیانی ریاستوں کے ایک گروہ کو ابھارنا چاہیے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے امریکی منصوبے (US 2018 Nuclear Posture Review) کی مخالفت کریں، جو کہ دنیا میں ہتھیاروں کی ایک نئی اور غیر مستحکم دوڑ شروع کرسکتا ہے۔
چوتھی حکمتِ عملی
پاکستان کو امریکا پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے اسٹریٹجک منصوبوں کے خلاف تفریق پر مبنی پابندیوں کا خاتمہ کرے، کیوں کہ یہ تعاون پر مبنی دو طرفہ تعلقات کے لیے ضروری ہے۔
پہلے قدم کے طور پر امریکا کو پاکستان کو ہندوستان سے متوازی سول ایٹمی تعاون اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت فراہم کرنی چاہیے۔ یہیں سے معلوم ہوجائے گا کہ ہندوستان پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کے بارے میں کیا نیت رکھتا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔
لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔