پرویز مشرف کے ’اختیارات کے غلط استعمال‘ کی تفصیلات نیب میں طلب
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق درخواست جمع کرانے والے سابق فوجی آفسر سے تفصیلات طلب کرلیں۔
پاک فوج کے کرنل (ر) ایڈووکیٹ انام الرحیم کی جانب سے سابق آرمی چیفس جنرل (ر) پرویز مشرف اور جنرل (ر) یوسف خان کے خلاف نیب میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
جس پر نیب کی جانب سے درخواست گزار کو ایک نوٹس جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ان الزامات کی تحقیقات جاری ہیں، جس میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ درخواست گزار کے پاس مذکورہ الزامات کے حوالے سے شواہد یا معلومات موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: جلد فیصلے کیلئے وفاقی حکومت کی اپیل
نیب کی جانب سے درخواست گزار کو متنبہ کیا گیا کہ اگر وہ سابق جرنیلوں کے خلاف الزامات کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے تو انہیں قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کی دفعہ 2 کے تحت نتائج بھگتنا ہوں گے۔
این اے او 1999 کی دفعہ 2 کے مطابق ’اگر کوئی شخص نیب اہلکاروں یا پھر کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی کو پوچھے گئے سوالات کے جواب نہ دینے یا پھر معلومات فرام کرنے میں ناکامی کی صورت میں 5 سال تک کی قیدِ بامشقت کی سزا دی جاسکتی ہے‘۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ان کیمرہ بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ جب سے نیب نے اپنا کام کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے اب تک این اے او 1999 کی دفعہ 2 کے تحت صرف 2 افراد کو ہی سزا دی جاسکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کو ’بڑا نقصان‘ پہنچایا، عمران خان
نیب کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق مجاز اتھارٹی نے درخواست گزار کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو سنجیدگی سے لیا ہے، لہٰذا درخواست گزار کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پلاٹ کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور اس حوالے سے سابق آرمی چیف کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے شواہد نیب کے سامنے پیش کریں۔
کرنل (ر) انعام الرحیم نے یہ درخواست نیب میں 5 سال قبل جمع کرائی تھی، تاہم نیب نے اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ نیب کے پاس سابق آرمی افسران کے خلاف کارروائی کا آئنی اختیار موجود نہیں، جس کے بعد درخواست گزار نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق نیب نے درخواست گزار کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کی دفعات کی تشریح میں غلطی کی تھی، لہٰذا اس فیصلے نے نیب کو سابق آرمی افسران کے خلاف کارروائی کے لیے اہل بنا دیا۔
مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: نیب کا پرویز مشرف کےخلاف تحقیقات کا فیصلہ
درخواست گزار کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کی۔
درخواست کے مطابق جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے ماتحت افسران کو نوازا، اور سینئر افسران کو عہدے کے استحقاق سے زائد پلاٹس الاٹ کیے۔
درخواست گزار کی جانب سے یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے جنرل (ر) یوسف خان کو 85 پلاٹس، الاٹ کیے تھے، جن میں کمرشل اور رہائشی پلاٹس شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے پر زرداری، مشرف عدالت طلب
درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف 1999 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا اقدار ختم کرتے ہوئے خود ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے اور اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے 2 مرتبہ پاکستان کا آئین توڑا تھا۔
درخواست گزار نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے ہی بلوچ رہنما اکبر خان بگٹی کے قتل کے احکامات جاری کیے تھے، ایک جج کو برطرف اور قید کیا تھا، اس کے علاوہ وہ کراچی میں 12 مئی 2007 کو ہونے والے قتلِ عام کے ماسٹر مائنڈ تھے، جبکہ انہوں نے ملک میں ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی جسے 2009 میں سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
یہ خبر 02 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی