نقطہ نظر

کوریا میں صدی کا سب سے بڑا جوا! کس کا فائدہ کس کا نقصان؟

تاریخ سے اگر صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو جواب اتنا امید افزا نہیں ملتا جتنا امریکا اور جنوبی کوریا سمجھ رہے ہیں

کمیونسٹ شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ اُن نے پیدل سرحد پار کرکے جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن سے ملاقات کی، امن خوشحالی اور خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کے ساتھ ہی دونوں رہنما بغلگیر ہوئے اور دنیا بھر کی ٹی وی اسکرینوں پر کروڑوں لوگوں نے ان لمحات میں نئی تاریخ بنتے دیکھی۔ یقیناً یہ انتہائی اہم ملاقات اور اعلامیہ ہے جو نہ صرف آج کی دنیا کے حالات پر اثر انداز ہوگا بلکہ مستقبل میں بھی دور رس اور دیرپا نتائج مرتب کرے گا۔

2017ء میں جزیرہ نما کوریا مسلسل حالتِ جنگ میں رہا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پورے سال ٹوئٹر کے ذریعے دھمکیاں دیتے رہے، شمالی کوریا کے صدر کو کبھی لِٹل راکٹ مین کہا تو کبھی امریکی طیش کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے کا انتباہ جاری کیا گیا۔ لیکن نئے سال میں اچانک اور تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں نے نہ صرف لہجوں کی گرمی کم کردی ہے بلکہ شمالی کوریا کے آئے روز ہونے والے میزائل تجربات بھی بند ہوچکے ہیں۔

کمیونسٹ شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ اُن نے پیدل سرحد پار کرکے جمہوریہ کوریا کے صدر مون جے اِن سے ملاقات کی—تصویر:اے پی

سوال یہ ہے کہ کیا سفارتکاری واقعی اس قدر تیز اور مؤثر ہوسکتی ہے؟ یا پھر امریکا اور جنوبی کوریا کے صدر 21ویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی جوا کھیلنے جارہے ہیں۔ یہ اہم سوال ہے جس کا جواب تاریخ سے ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو اس قدر امید افزاء جواب نہیں ملتا جس قدر ٹرمپ اور مون پُرجوش اور پُرامید ہیں۔

جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کے فوری خاتمے اور 2 کوریا کے ایک ہوجانے کی امید لگانے والے شاید بھول گئے ہیں کہ 1992ء میں بھی شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان علاقے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ 1994ء میں امریکا، 2005ء میں 6 فریقی مذاکرات کے شرکاء اور 2012ء میں اوباما انتظامیہ کے ساتھ بھی ایسے معاہدے ہوئے۔

پڑھیے: کوریا کا بٹوارہ: تاریخی حماقت، امریکا کے لیے مستقل دردِ سر

شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ اُن اپنے والد اور دادا کی طرح ایک انقلابی ہونے کے دعویدار ہیں۔ شمالی کوریا کے بانی کم ال سنگ نے حب الوطنی اور خودانحصاری کا نعرہ لگایا تھا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے کم جونگ ال نے خود کو والد کا درست جانشین ثابت کرنے کے لیے ’ملٹری فرسٹ’ کا نعرہ دیا۔ 2011ء میں کِم جونگ اُن نے صدارت سنبھالی اور 2012ء میں باپ دادا کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے ملکی آئین میں ترمیم کی اور ملک کو ’ایٹمی ریاست‘ قرار دیا۔

’ایٹمی ریاست‘ بننے پر شمالی کوریا میں جشن

اب شمالی کوریا کے صدر کی جنوبی کورین ہم منصب اور امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقاتوں میں ڈی نیوکلیئرائزیشن کی یقین دہانی ازخود ردِ انقلاب ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ اور صدر مون کی کوششوں کو صدی کا سب سے بڑا جوا کہنا کچھ غلط بھی نہیں۔

غیر فوجی علاقے میں دونوں کوریا کے رہنماؤں کی ملاقات میں کوریا کے ایک ہونے کو بھی اعلامیے کا حصہ بنایا گیا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے شمالی کوریا نے 5 مئی سے گھڑیاں نصف گھنٹہ آگے کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ پروپیگنڈہ کے لیے سرحدوں پر نصب بھاری لاؤڈ اسپیکر بھی ہٹالیے گئے ہیں، بظاہر سب اچھا لگ رہا ہے۔ کِم اور ٹرمپ کی ملاقات کے لیے بھی ماحول سازگار بنایا جارہا ہے۔ دونوں کوریا کے درمیان غیر فوجی علاقہ ہی ملاقات کے لیے موزوں تصور کیا جا رہا ہے۔ ملاقات اسی ماہ یا اگلے ماہ کے اوائل میں ممکن ہے۔

کِم-ٹرمپ ملاقات میں میز پر برتری اب تک کِم جونگ اُن کی ہی دکھائی دیتی ہے، اس کا ثبوت امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا اے بی سی نیوز کو دیا گیا انٹرویو ہے۔ مائیک پومپیو سے پوچھا گیا کہ شمالی کوریا پر عائد پابندیوں میں نرمی کی ٹائمنگ کیا ہوگی؟ کیا شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام مکمل ختم ہونے پر ہی پابندیاں نرم کی جائیں گی؟ مائیک پومپیو نے اس سوال کا براہِ راست جواب دینے کے بجائے کہا کہ ہم ماضی میں کی گئی کوششوں سے بالکل مختلف انداز میں معاملہ طے کریں گے، ہماری آنکھیں پوری طرح کھلی ہیں۔

پڑھیے: ’پہلا بم گرائے جانے تک شمالی کوریا سے مفاہمت کی کوششیں جاری‘

امریکی وزیرِ خارجہ کا جواب اس قیاس آرائی کو تقویت دے رہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے وعدے پر شمالی کوریا کو کچھ رعایت دے سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی امریکا نے شمالی کوریا کے وعدوں پر ایسی رعایتیں دیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ صدر ٹرمپ کے پہلے مؤقف کے برعکس ہوگا، کیونکہ ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں اور پروگرام کے مکمل خاتمے سے پہلے شمالی کوریا کو کچھ نہیں ملے گا۔

اگر یہ یقین کرلیا جائے کہ شمالی کوریا کے صدر اپنے اعلانات اور ارادوں میں سچے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کا وعدہ پورا ہوجاتا ہے تو کیا دونوں کوریا ایک ہوجائیں گے؟ یہ امکان ایٹمی ہتھیاروں اور پروگرام کے خاتمے کے امکانات سے زیادہ مشکل ہے بلکہ اسے اب تک کی صورت حال میں ناممکن ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے پر چین کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اس کا حامی ہے لیکن دونوں کوریا کے ایک ہونے کا تصور چین کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا، اس کے علاوہ دونوں کوریا کے اندرونی حالات اور معاملات بھی ایک ہونے کے امکانات کے لیے سازگار نہیں۔

اب تک ہونے والی پیشرفت میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چین ایک طرف ہوگیا ہے یا پھر کردیا گیا ہے۔ کِم جونگ اور مون کی ملاقات کے موقعے پر چین بالکل خاموش تھا۔ چین کا سرکاری میڈیا بھی اس ملاقات کے بجائے صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی ملاقات پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا۔ کوریا کے صدارتی مذاکرات کے بعد چین کی وزارتِ خارجہ نے خیر مقدم کا روایتی بیان جاری کیا۔

پڑھیے: شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کا دورہ چین، اعلٰی حکام سے ملاقاتیں

اِسی ہفتے چین کے وزیرِ خارجہ شمالی کوریا پہنچ رہے ہیں اور چین خطے میں ہونے والی پیشرفت میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے جا رہا ہے۔ شمالی کوریا کے ایٹمی مسئلے پر چین کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ یہ واشنگٹن اور پیانگ یانگ کا باہمی معاملہ ہے۔ ایٹمی معاملہ واشنگٹن اور پیانگ یانگ کا دو طرفہ مسئلہ ہوگا لیکن دونوں کے تعلقات میں گرم جوشی چین کے حق میں ہے نہ ہی وہ امریکی شرائط پر دونوں کوریا کو ایک کرنے کی کوششوں کا ساتھ دے گا۔

کِم جونگ اُن اور مون جے اِن گارڈ آف آنر کا معائنہ کر رہے ہیں—تصویر اے پی

چین ایٹمی مسئلے پر خود خاموش ہے لیکن جب دونوں کوریا کے ایک ہونے کی بات ہوگی تو چین کو نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ 1953ء میں جنگ بندی معاہدے پر امریکا، چین اور شمالی کوریا کے دستخط ہیں اور جب امن معاہدہ طے پائے گا تو چین کو اس میں شامل کرنا مجبوری ہوگی۔

اس ماہ جاپان، جنوبی کوریا اور چین کے سہ فریقی مذاکرات بھی چین کو معاملات میں شامل رکھے ہوئے ہیں۔ چین شمالی و جنوبی کوریا کو باہمی مذاکرات کے لیے آسانی فراہم کر رہا ہے اس لیے اس کا رویہ محتاط ہے لیکن چین پسِ پردہ اپنی سفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور چین کے وزیرِ خارجہ کا دورہ اسی کا حصہ ہے۔

دونوں کوریا کے ایک ہونے سے چین کو کیا فرق پڑتا ہے؟ خطے میں جنوبی کوریا اور جاپان امریکی اتحادی ہیں۔ چین اور روس شمالی کوریا کے مددگار اور اتحادی ہیں یوں ایک توازن قائم ہے۔ شمالی کوریا کے خطرے کو جواز بنا کر امریکا نے 40 ہزار فوجی جاپان اور ساڑھے 28 ہزار فوجی جنوبی کوریا میں تعینات کر رکھے ہیں۔ اگر دونوں کوریا امریکی شرائط پر ایک ہوتے ہیں تو اس کا مطلب امریکی فوج کا چینی سرحد تک پہنچنا ہے، یہ صورت حال چین کے لیے ناقابلِ قبول ہوگی۔

دونوں کوریا کے ایک ہونے پر خطے میں امریکی افواج کی موجودگی کا جواز بھی جاتا رہے گا، اس لیے امریکا بھی دونوں کوریا کے ایک ہونے کی کوشش پر زیادہ سنجیدہ نہیں ہوگا۔ جنوبی کوریا خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف ہے وہ بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ امریکی افواج خطے سے واپس جائیں۔ یوں کوریا کے ایک ہونے میں خود جنوبی کوریا کا خوف بھی ایک رکاوٹ ہوگا۔ شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر ختم کرانے کے بعد امریکیوں کی واپسی خطے میں چین کے اثر کو مزید مضبوط کرے گی، اس پہلو سے دیکھا جائے تو شمالی کوریا کا معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں۔ امریکا کبھی بھی چین کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دے سکتا، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر ڈیل کی امریکا کو کوئی جلدی نہیں۔

پڑھیے: شمالی کوریا کا مزید ایٹمی تجربات نہ کرنے کا فیصلہ

دونوں کوریا کے ایک ہونے کے امکانات کو دیوارِ برلن گرنے کے واقعے سے ملا کر دیکھا جائے تب بھی زیادہ اچھی تصویر بنتی نظر نہیں آتی۔ مشرقی یورپ میں جب کمیونسٹ حکومتوں کا زوال شروع ہوا تو سوویت یونین کے سربراہ میخائیل گورباچوف نے اپنے پیشرو برزنیف کے نظریے کو ترک کرتے ہوئے سوویت بلاک میں شامل ملکوں کی کسی قسم کی مدد سے ہاتھ اٹھا کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ مشرقی جرمنی نے مجبور ہوکر مغربی جرمنی کا ہاتھ تھاما اور دیوار برلن گرگئی۔

شمالی کوریا کے کچھ لوگ بھاگ کر جنوبی کوریا جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں جبراً روکا جاتا ہے۔ شمالی کوریا بھی مشرقی جرمنی کی طرح بدحال معیشت ہے لیکن ابھی اس کی حکومت مکمل بحران میں نہیں، پھر مشرقی جرمنی کے برعکس شمالی کوریا کے پاس بڑی فوج اور ہتھیار بھی ہیں اور شمالی کوریا کو علم ہے کہ جبری انضمام کی کوشش کی صورت میں چین خاموش تماشائی نہیں ہوگا۔

جرمنی کو ایک کرنے کی کوشش میں امریکا اُس وقت کے جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل کے پیچھے ڈٹ کر کھڑا تھا اور متحدہ جرمنی کو ہر صورت نیٹو کا حصہ بنانے کے لیے پُرعزم تھا۔ امریکا اُس وقت خود کو تنہا سپرپاور بنانے اور دنیا کے ہر خطے میں بالادستی کے عزائم رکھتا تھا اور اُس وقت اُسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ امریکا یہ بھی یقینی بنانا چاہتا تھا کہ کمیونسٹ حکومتوں کے خاتمے کے بعد بھی یورپ نیٹو کو اپنی ضرورت تسلیم کرتا رہے۔ نیٹو ہی وہ مشین تھی جس کے سہارے امریکا یورپ کے سیکیورٹی معاملات میں دخیل بنا تھا۔ نیٹو ختم ہونے سے امریکا یورپ میں غیر متعلق ہوسکتا تھا۔

2014ء میں منائی گئی دیوارِ برلن کے انہدام کی 25ویں سالگرہ

برطانوی وزیرِاعظم مارگریٹ تھیچر اور اُس وقت کے فرانسیسی صدر فرانکوئس متراں متحدہ جرمنی کے مخالف تھے کیونکہ وہ طاقتور جرمنی کے تصور سے خوفزدہ تھے۔ گورباچوف نے بھی متحدہ جرمنی اور اسے نیٹو میں شامل کیے جانے کی مخالفت کی تھی۔ مغربی جرمنی میں بھی کچھ سیاست دانوں نے نیٹو کی رکنیت ترک کرکے متحدہ جرمنی کی حمایت کی لیکن اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے متحدہ جرمنی اور اس کے نیٹو میں شامل ہونے کو یقینی بنانے پر محنت کی۔ اس وقت کا سوویت یونین مزاحمت کے قابل نہیں تھا لیکن اب چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔

مغربی جرمنی کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن جنوبی کوریا کو شاید اب امریکا سے ویسی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ جس کا ثبوت تجارتی جھگڑے پر ٹرمپ کی جانب سے جنوبی کوریا سے فوج نکالنے کی حالیہ دھمکی ہے۔

جرمنی کے ایک ہونے کے معاملے پر بھی جنگِ عظیم دوم کے 4 فریق امریکا، برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین مذاکرات میں شریک ہوئے تھے۔ جنوبی کوریا کی جنگ کے بھی 4 فریق ہیں 2 کوریا، امریکا اور چین۔ جرمنی کے ایک ہونے کے لیے 4 فریقوں کو ایک پیج پر آنا پڑا تھا کوریا کے معاملے میں بھی ایسا کرنا پڑے گا۔

جہاں شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ اُن خاندانی اقتدار کی قربانی پر تیار نہیں ہوں گے وہاں جنوبی کوریا بھی اپنی جمہوریہ کو کِم جونگ اُن کی خاندانی ریاست میں ضم کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ اس کا آخری حل ’ایک ملک، دو نظام‘ بتایا جا رہا ہے، اور اسے چین اور ہانگ کانگ کی طرز پر چلانے کا کہا جارہا ہے۔ یہ بھی کِم جونگ اُن کے خاندانی اقتدار کے لیے خطرے سے خالی نہیں، کیونکہ اس نظام میں لوگوں کو آزادانہ آمد و رفت اور بغیر سینسر انفارمیشن تک رسائی حاصل ہوگی، اور ایسی صورتحال کِم جونگ کی حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

ان خدشات کے باوجود اگر ایک ملک کا خواب پورا ہوتا ہے تو اقتصادی، سماجی مسائل کا ایک پہاڑ ہے جسے سر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جنوبی کوریا ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ دنیا کی 11ویں بڑی معیشت ہے جبکہ مکمل زراعت پر انحصار والے شمالی کوریا کی جی ڈی پی جنوبی کوریا کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ایک ہونے کی صورت میں شمالی اور جنوبی کوریا کی مشکلات 1990ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے متحد ہونے کی صورت میں پیش آنے والی معاشی مشکلات سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔ شمالی کوریا سے بھاگ کر آنے والے افراد اب بھی جنوبی کوریا کو کچھ یوں دیکھتے ہیں کہ جیسے ٹائم مشین سے صدیوں کا سفر کرکے مستقبل میں پہنچے ہوں۔

دونوں کوریا کے متحد ہونے کی صورت میں جنوبی کوریا کی معیشت کا بیڑہ غرق ہوسکتا ہے۔ جنوبی کوریا کی معیشت کو 500 ارب ڈالر سے کئی کھرب ڈالر تک کا جھٹکا لگنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں، تاہم ابھی تک اس پر کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں ہوئی۔ جنوبی کوریا کی کمپنیاں شمالی کوریا کی سستی لیبر کا فائدہ اٹھانے کے چکر میں تنخواہیں کم کرسکتی ہیں اور ملازمین کی مراعات ختم ہوسکتی ہیں۔

ایک کوریا کے معاشی فوائد بھی ہیں، جنوبی کوریا سے شمالی کوریا کے راستے چین اور یوریشین ریاستوں تک ریل رابطے بے پناہ معاشی امکانات سے بھرپور ہیں لیکن کیا ریل رابطوں کے لیے جنوبی کوریا موجودہ معیشت کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوگا؟ یہ واضح نہیں۔

جزیرہ نما کوریا پر حالات اور تاریخ کا دھارا کیا رخ اختیار کرتا ہے اب اس کا انحصار جنوبی کورین صدر مون جے اِن اور صدر ٹرمپ کے لگائے سٹے پر ہے، ان کے پتے شو ہونے پر ہی بازی کا درست اندازہ لگایا جاسکے گا۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔