پاکستان

کوئٹہ: ہزارہ برادری کی بھوک ہڑتال دوسرے روز بھی جاری

آرمی چیف فوری طور پر کوئٹہ آئیں اور بیوہ خواتین سے ملاقات کرکے انھیں تحفظ کی یقین دہانی کرادیں، جلیلہ حیدر

کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی جانب سے گزشتہ روز ہونے والے دو افراد کے قتل کے خلاف دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا جہاں دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی شرکت کی۔

سماجی کارکن جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ کی سربراہی میں ہزارہ قبائل کی خواتین اور مردوں کی جانب سے تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر لگا دیا گیا ہے جہاں موجود مظاہرین نے حکومت اور فورسز پر سخت تنقید کی اور نعرے لگائے۔

جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ آئے روز ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ لمحہ فکریہ ہے نہ پولیس اور نہ ہی فورسز ہمیں تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ آرمی چیف جلد از جلد کوئٹہ آئیں اور ان بیواؤں سے ملاقات کریں اور ہمیں تحفظ کی فراہمی کی یقین دہانی کروائیں کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مطالبات کی منظوری تک ہمارا بھوک ہڑتالی کیمپ جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ: نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق، اہلِ خانہ کا احتجاج

دوسری جانب کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف شہدا چوک پر جلسہ کیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے اور کہا کہ ہم روٹی، کپڑا اور مکان نہیں بلکہ زندگی چاہتے ہیں۔

مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سماجی رہنماوں کی جانب سے احتجاجی جلسہ کوئٹہ علمدار روڈ شہدا چوک پر بلوچستان شیعہ کانفرنس کے زیر اہتمام ہوا۔

جلسے میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، مجلس وحدت مسلمین، انجمن تاجران کے رہنما شریک ہوئے ۔

احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ ہمارے 2 ہزار افراد کو ٹارگٹ کلنگ کرکے شہید کیا گیا جبکہ 3 ہزار افراد زخمی کیے گئے، ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہمارے لوگوں کا روزگار بند کیا جاتا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سازش کی جارہی ہے کہ اگر ہم گولیوں سے ختم نہیں ہو رہے ہیں تو بھوکا مارا جائے گا،

جلسے سے خطاب کرتے ہوے لیاقت ہزارہ کا کہنا تھا کہ حکومت میں کالی بھیڑیں ہیں جو امن نہیں ہونے دیتیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی سید ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام روٹی کپڑا، مکان نہیں مانگ رہے صرف جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ریاست کمزور ہوجاتی ہے تو بد امنی ہوتی ہے، جب پالیسیاں غلط ہوں گی تو یہی صورت حال ہو گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام، پولیس اور سیکیورٹی فورسز بھی محفوظ نہیں ہیں۔

جلسے خطاب کرتے ہوئے ظاہر آغا ہزارہ کا کہنا تھا کہ آج ہماری آبادیاں یتیم خانوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، ہمارا خون پانی سے بھی سستا ہوگیا ہے، ہم جینے کا حق ریاست سے مانگتے ہیں۔

بعد ازاں مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن اور سماجی کارکن بھی احتجاجی کیمپ میں آئے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز کوئٹہ کے وسط میں واقع جمال الدین افغانی روڈ میں ایک لیکٹرونکس کی دکان پر فائرنگ سے دو افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

پولیس ذرائع کے مطابق نامعلوم مسلح افراد نے دکان میں موجود افراد پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دونوں ہی موقع پر دم توڑ گئے، جبکہ ملزمان باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

پولیس ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والے دونوں افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا، جن کی شناخت جعفر اور محمد علی کے نام سے ہوئی۔

واضح رہے رواں ماہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر فائرنگ کا یہ تیسرا واقعہ تھا، اس سے قبل 22 اپریل کو مغربی بائی پاس کے علاقے میں فائرنگ کرکے 2 افراد کو قتل اور ایک کو زخمی کردیا گیا تھا۔

یکم اپریل کو بھی کوئٹہ کے قندھاری بازارمیں ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور ایک شخص زخمی ہوا تھا، گزشتہ ماہ 5 مارچ کو علی بھائی روڈ پر بھی ایک شخص کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ کوئٹہ میں پیش آنے والے ان تمام واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔

صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گزشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں اضافہ ہوا ہے۔