ماحول دوست مینگرووز سے ہماری دشمنی کیوں؟
ماحول دوست مینگرووزسے ہماری دشمنی کیوں؟
قدرتی نظام میں کچھ عوامل ایسے ہیں جن پر انسان اثرانداز نہیں ہوسکتا، مثلاً زلزلے، یہ ضرور آئیں گے اور آپ انہیں روک نہیں سکتے۔ مگر موسم، آب و ہوا اور پانی کا نظام ایسے عوامل ہیں جن پر انسانی سرگرمیاں نہایت منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، جس کا نتیجہ سال در سال بڑھتی ہوئی گرمی، سردیوں کے مختصر ہوتے ہوئے دورانیے اور موسموں کی عمومی شدت میں اضافے کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
پاکستان بھی اس صورتحال سے محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان میں تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی موجود ہے جس کا اپنا ایک ماحولیاتی تنوع ہے۔ یہاں پر مخصوص انواع و اقسام کے پیڑ پودے صدیوں سے موجود ہیں، جن میں سب سے اہم پودے مینگرووز کے ہیں، جن کی سندھ کے ساحلی علاقوں میں سب سے زیادہ پائی جانے والی نسل تمر (Avicennia marina) ہے۔
کیا یہ پودے محض بے مقصد طور پر اگی ہوئی جھاڑیاں ہیں؟ نہیں۔ کسی بھی ساحلی علاقے میں مینگرووز کی موجودگی نہ صرف وہاں کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ سمندر کی اونچی لہروں سے بھی ساحلوں کو تحفظ دیتی ہے۔ یہ بات 2004ء میں سب سے زیادہ واضح تب ہوئی جب انڈونیشیا اور بحرِ ہند کے دیگر ساحلی ممالک میں سونامی نے 2 لاکھ سے زیادہ جانیں لیں جبکہ کروڑوں لوگ دربدر ہوئے۔
قدرتی آفات نقصان تو پہنچاتی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ ایک یاد دہانی، ایک وارننگ بھی ہوتی ہیں کہ ماحول دوست اقدامات کرنے کے لیے اب وقت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ ہماری ساحلی پٹی پر بھی مینگروو کے گھنے جنگلات موجود ہیں جنہیں ترقیاتی کاموں، زمینوں پر قبضے اور لکڑی حاصل کرنے کے لیے کاٹا جاتا رہا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی جانب سے دہائیوں پر مبنی تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی کہ سندھ کے ساحلی علاقوں میں مینگرووز کے جنگلات نے بتدریج اپنا رقبہ گنوایا ہے، مگر اب ان جنگلات کو معدوم ہونے سے پہلے بچا لینے کی کوششیں آہستہ آہستہ رنگ لانے لگی ہیں۔