حالتِ جنگ کے باوجود کوریائی سربراہان امن قائم کرنے پر متفق
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے مابین طویل عرصے سے جاری کشیدگی کے دوران گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں پہلی بار دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
گزشتہ روز جنوبی کوریا کے سرحدی گاؤں ’پان من جوم‘ میں جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کِم جونگ اُن نے اپنے اعلیٰ سطحی وفود کے ہمراہ ملاقات کی، جس میں جزیرہ نما کوریا میں امن و استحکام اور باہمی تعلقات کے حوالے سے مذاکرات کیے گئے۔
واضح رہے 1953 میں کوریا جنگ کے اختتام کے بعد دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والی یہ تیسری ملاقات تھی جس میں سے گزشتہ 2 ملاقاتیں بالترتیب سال 2000 اور 2007 میں شمالی کوریا میں ہوئیں، جبکہ کوریا جنگ کے بعد کِم جونگ ان شمالی کوریا کے پہلے حکمران ہیں جو سرحد عبور کر کے جنوبی کوریا آئے۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی کوریا: جوہری تنازع ختم کرنے کیلئے اُن کی اِن سے تاریخی ملاقات
ملاقات کے بعد دونوں سربراہان نے مشترکہ طور پر ایک اعلامیہ پر دستخط کیے جس کے تحت اتفاق کیا گیا کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے گا، تاہم اس ضمن میں کسی لائحہ عمل یا ممکنہ مدت کا ذکر نہیں کیا گیا۔
مشترکہ اعلامیے میں خطے میں فوجی کشیدگی کم کرنے کے لیے اسلحے میں کمی کرنے، جنگ کے دوران بچھڑ جانے والے خاندانوں کی ملاقات کرانے، دونوں ممالک کو ریل کے نظام سے آپس میں منسلک کرنے اور رواں سال ہونے والے ایشیائی گیمز سمیت کھیلوں کی دیگر سرگرمیوں کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا کا اولمپک کے لیے اپنی ٹیم جنوبی کوریا بھیجنے کا اعلان
اس سلسلے میں دونوں ممالک میں مستقل امن کے قیام اور جنگ کے خاتمے کے لیے سال کے آخر تک معاہدہ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا، جبکہ ان مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد لینے پر بھی رضامندی ظاہر کی گئی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1953 میں کوریا جنگ کا اختتام ایک سمجھوتے کے تحت کیا گیا تھا اور باقاعدہ طور پر جنگ کے خاتمے کا معاہدہ تاحال نہیں کیا جاسکا، جس کے سبب دونوں ممالک تکنیکی اعتبار سے اب بھی حالت جنگ میں ہیں۔