پاکستان

59 کھرب 32 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش

آئندہ مالی سال کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.9 فیصد یا 18 کھرب 90 ارب روپے تجویز کیا گیا۔

ریلویز

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ پانچ سال میں پاکستان ریلوے کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، سال 2018-19 کے بجٹ کیلئے 35 ارب روپے کی بجٹ گرانٹ کے علاوہ ترقیاتی سرمایہ کاری کیلئے 39 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

گوادر کی ترقی

مشیر خزانہ نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ کو عالمی تجارت کیلئے مکمل فعال کرنے کا خواب اب بتدریج حقیقت میں تبدیل ہو رہا ہے، سال2018-19 کے بجٹ میں ہمارا بنیادی مقصد جاری منصوبوں کی تکمیل کیلئے ضروری وسائل مختص کرنا ہے۔

ان منصوبوں میں گوادر ایئرپورٹ اور اس سے ملحقہ سڑکوں کی تعمیر، بندرگاہ کی سہولیات بشمول صاف پانی کا پلانٹ، 50 بیڈز کے ہسپتال کو 300 بیڈز تک اَپ گریڈ کرنا، گوادر ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کیلئے انفراسٹرکچر کی تعمیر، سی پیک انسٹیٹیوٹ کا قیام اور ڈیموں کی تعمیر شامل ہے۔


مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہم ایک نئے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں جس کا نام 100،100،100 ہے۔ وفاقی حکومت کا عہد ہے کہ 100 فیصد بچوں کے اسکول میں داخلے، 100 فیصد بچوں کی اسکول میں حاضری اور 100 فیصد بچوں کے کامیابی سے فارغ التحصیل ہونے کو یقینی بنائے گی۔ 70 سال کی طویل مدت کے بعد بھی ہم پاکستانی رہنماؤں نے اس ملک کے بچوں کو مایوس کیا ہے، ہم ان کو تعلیم کی روشنی فراہم نہیں کر سکے لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ تعلیم کا شعبہ اب صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، پھر بھی وفاقی حکومت مالی اور انتظامی لحاظ سے ہر صوبے کو اس مقصد کے حصول میں معاونت فراہم کرے گی۔ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے یہ ایک قومی عہد ہے جو میں آج پاکستان کے بچوں سے کر رہا ہوں، ہم آپ کو تعلیم دیں گے اور ہم 100،100،100 پر مُصر رہیں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے صحت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ہیں اور عوام کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کے شعبے کو صوبوں کے حوالے کئے جانے کے باوجود وفاقی حکومت اس شعبے میں اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی نہیں کر سکتی تھی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار غریب عوام کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کیلئے ’پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام‘ کا اجراء کیا گیا جس کے تحت 30 لاکھ خاندانوں کو 41 اضلاع میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں سے صحت کی معیاری سہولیات بالکل مفت فراہم کی جا رہی ہیں اور اب اس پروگرام کا دائرہ ملک کے تمام اضلاع تک پھیلایا جا رہا ہے۔


وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 18-2017 کے دوران دی جانے والی مراعات کو جاری رکھا جائے گا، بجٹ میں جن مراعات کا اعلان کیا گیا تھا ان میں زرعی سود کی کمی، زرعی درجہ جات کی حد میں اضافہ، ہارویسٹر پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ، سورج مکھی اور کینولا کے بیج کی در آمد پر خاتمے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام کھادوں پر جنرل سیلز ٹیکس کی یکساں شرح نفاذ، کاشت کاری کے حوالے سے کھاد کی اہمیت کو مد نطر رکھتے ہوئے حکومت نے کھاد پر سیلز ٹیکس میں کمی کی ہے۔ ڈی اے پی کی قیمت میں 4 فیصد کمی جبکہ یوریا میں 5 فیصد اور دیگر پر 9 سے 11 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بجٹ میں کھاد پر ٹیکس کو 3 فیصد رکھنے کی تجویز دی گئی تھی تاہم وزیر فوڈ سیکیورٹی کی سفارش پر وزیر اعظم پاکستان نے اسے کم کر کے صرف 2 فیصد تک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

زرعی مشینری پر جی ایس ٹی کی شرح کو موجودہ 7 فیصد سے کم ہو کر 5 فیصد تک کرنے کی تجویز ہے۔ ڈیری اور لائیو اسٹاک کے لیے ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ کی تجویز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کاٹن کے سبجیکٹ کو وزارت ٹیکسٹائل سے لے کر منسٹری آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے حوالے کردیا گیا ہے۔

مفتاح اسمٰعیل حکومت 5 ارب روپے سے ایگریکلچر سپورٹ فنڈ قائم کر رہی ہے یہ فنڈ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے پودوں اور بیج کے جدید اقسام پر کی جانے والی تحقیق اور ترقی کے لیے مالی معاونت فراہم کرے گی، اس فنڈ کا انتظام وزارت خزانہ اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی جانب سے کیا جائے گا۔

حکومت نے زرعی ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے ایک اور 5 ارب روپے کا فنڈ قائم کرنے کی تجویز کی ہے۔ یہ فنڈ بھی وزارت خزانہ اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام ہوگا۔

خیال رہے کہ گزشتہ مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ کسانوں کیلئے قرضوں کا حجم ایک ہزار ایک ارب روپے مقرر کیا گیا اور یکم جولائی 2017 سے شروع ہونے والے مالی سال سے 9.9 فیصد سالانہ کی شرح سے زرعی قرضے ملیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ زرعی قرضوں کا حجم ترقیاتی حجم کے برابر کیا گیا، فی کسان 50 ہزار روپے تک قرضہ دیا جائے گا جبکہ زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کی جارہی ہے۔


وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکسٹائل، چمڑے، کھیلوں کی مصنوعات، قالین، سرجیکل مصنوعات جیسے 5 بڑے مصنوعات کو زیرو ریٹنگ سیلز ٹیکس قرار دیئے جانے کو جاری رکھا جائے گا، حکومت نے آلو کی بر آمد پر ٹریڈ سپورٹ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کی تفصیل جلد ہی دے دی جائے گی۔

ان کاکہنا تھا کہ لانگ ٹرم فنانس (ایل ٹی ٹی ایف) اور ایکسپورٹ ری فنانس (ای آر ایف) کو اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت مارک اپ کی کم شرح پر جاری کیا جائے گا، ایکسپورٹرز کے ریفنڈ کے حوالے سے درپیش مسائل کے لیے بر آمدی شعبے کے لیے کیے جانے والے در آمدات پر زیرو ریٹنگ کی جانب جارہے ہیں تاکہ نئے ریفنڈڈ کلیمز میں واضح کمی آسکے۔

انہوں نے کہا کہ یکم جولائی 2018 سے زیر التوا ریفنڈز کلیمز کو اگلے 12 ماہ کے دوران مختلف مراحل میں ادا کردیا جائے گا جبکہ اس ہی تاریخ کے بعد تمام ریفنڈ کلیم کی ماہانہ ادائیگی کی جائے گی اور کوئی تاخیر نہیں ہوگی، انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان بر آمدات کے فروغ کے لیے ایک نئے ایکسپورٹ پیکج کا بھی اعلان کرے گی۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ نان ٹریڈیشنل مصنوعات و مارکیٹ کے لیے بڑے پیکج کا اعلان جلد کیا جائے گا، چھوٹے کسانوں کے لیے قرضوں کی رسائی آسان بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے زرعی قرضہ جات کے حدف 2013 کے 315 ارب روپے سے بڑھا کر 2018 میں 1 ہزار 1 ارب روپے کردیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں اس کو 11 سو ارب روپے تک بڑھایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زرعی پیداوار میں ہونے والے اخراجات میں اضافے اور قرضے میں بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر پی آئی یو کی قدر کو 6 ہزار روپے تک بڑھایا جارہا ہے۔ پی آئی یو کی قدر 2013 میں صرف 2 ہزار روپے تھی جسے پچھلے سال 5 ہزار کیا گیا تھا تاہم اب اس میں مزید 1 ہزار روپے کا اضافی کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ڈرامہ اور فلم سازی سینما کے ساز و سامان میں کسٹم ڈیوٹی میں کی شرح کم کرکے 3 فیصد اور سیلز ٹیکس کی شرح کم کرکے 5 فیصد کیا جارہا ہے، فلم اور ڈرامے کے فروغ کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جارہا ہے جس سے فلم انڈسٹری اور مستحق فنکاروں کی مالی امداد کی جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ فلم کے منصوبے پر سرمایہ کاری کرنے والے افراد اور کمپنیوں کے لیے 5 سال تک انکم ٹیکس پر 50 فیصد تک کی چھوٹ دی جائے گی۔ فلم پالیسی کی تفصیلات کچھ دنوں میں سامنے آجائے گی۔

سیگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی موجودہ شرح بڑھا کر ٹیئر 1 سیگریٹ پر 3 ہزار 964 روپے، ٹیئر 2 سیگریٹ پر 1770 اور ٹیئر 3 سیگریٹ پر 4 ہزار 848 روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا کہ بیلوں کی درآمدات پر عائد 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی واپس لے لی گئی جبکہ لائیو اسٹاک کی فیڈ کے لیے کسٹم ڈیوٹی کی دستیاب شرح کو کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

پولٹری کے شعبے کے لیے وٹامن بی 12 اور گروتھ پرومیٹر پر دستیاب کسٹم شرح کو 10 سے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

مائیکرو فیڈر سامان کی درآمدات پر عائد 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی کو واپس لے لیا جائے، اس کے علاوہ آپٹیکل فائبر کیبل کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد تک کم کرنے کی تجویز ہے اور مقامی صنعت کی فروغ کے لیے اسیٹک ایسڈ سے کسٹم ڈیوٹی 20 سے کم کرکے 16 فیصد کی جارہی، پلاسٹر پر ڈیوٹی 16 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کی جارہی، کاربن بلیک ربڑ پر ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کرکے 16 فیصد کی جارہی۔

اس کے علاوہ سیلیکون الیکٹرک اسٹیل شیٹ پر ڈیوٹی 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جارہی، اسی طرح بجلی کی گاڑیوں کی درآمدات پر عائد کسٹم ڈیوٹی 50 فیصد ہے، جسے کم کرکے 25 فیصد تک لانے کی تجویز ہے جبکہ 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو بھی واپس لیا جارہا۔

مالی سال 17-2016 میں درآمدات میں 14.2 فیصد اضافہ ہوا لیکن اسے قبل 16-2015 میں 2.3 فیصد اور 15-2014 میں 0.9 فیصد کمی واقع ہوئی تھی جبکہ 14-2013 میں 3.8 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔

مالی سال 17-2016 میں برآمدات میں 1.4 فیصد، 16-2015 میں 8.8 فیصد اور 15-2014 میں 3.9 فیصد کمی واقع ہوئی تھی جبکہ 14-2013 میں اس میں 1.1 فیصد اضافہ ہوا تھا۔


پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مالی سال 19-2018 کے بجٹ میں دفاع کے لیے گزشتہ برس کے مقابلے میں 19.4 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 11کھرب (1100 ارب) روپے تجویز کیے ہیں۔

وفاقی حکومت نے دفاعی بجٹ میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 19.4 فیصد اضافہ کیا، سال 18-2017 کے بجٹ میں 9 کھرب 20 ارب (920 ارب) روپے دفاع کے لیے رکھے گئے تھے، 19-2018 میں اس میں ایک کھرب 80 ارب (180ارب) روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا ہے یکم جولائی 2018 سے فوجی ملازمین اور سول ملازمیں کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس بھی دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ برس مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں دفاع کے لیے مختص رقم میں 7 فیصد اضافہ کیا تھا۔

وفاقی حکومت نے 17-2016 میں دفاع کے لیے 860 ارب مختص کیے تھے جبکہ 18-2017 کے بجٹ میں دفاع کے لیے 920 ارب روپے تجویز کیے تھے۔

واضح رہے کہ 18-2017 میں مجموعی بجٹ 51 کھرب روپے تجویز تھا۔

یاد رہے کہ مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں دفاع کے لیے مختص بجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں ہوا تھا، 860 ارب میں سے 841 ارب روپے کا بجٹ خرچ کیا گیا تھا۔

بجٹ میں فوجی اہلکاروں اور افسران کی خدمات کے اعتراف میں خصوصی الاونس کا بھی اعلان کیا گیا تھا جبکہ جوانوں کی تنخواہ میں بھی 10 فیصد کا اضافہ کیا گیا تھا۔


وفاقی حکومت نے مالی سال 19-2018 کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کے لیے 10 کھرب 67 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دے دی۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال 2017-18 کے مالی بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں 37 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں کو پی ایس ڈی پی بجٹ کا 67 فیصد حصہ حاصل ہوگا، جس کے لیے 411 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

گزشتہ برسوں بجٹس میں ترقیاتی کاموں کے لیے 18-2017 میں ایک ہزار ایک ارب روپے، 17-2016 میں 800 ارب روپے، مالی سال 16-2015 میں 700 ارب روپے، 15-2014 میں 525 ارب روپے جبکہ 14-2013 میں 540 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔


بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ آج پاکستان گزشتہ 15 سالوں کی نسبت زیادہ پرامن ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے فوجی اور نیم فوجی اداروں نے ملک کیلئے دلیری سے لڑتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ آپریشن ’ضرب عضب‘ کے ذریعے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے بھی تباہ کر دیئے گئے ہیں، میں ان جوانوں، افسروں اور شہریوں کو سلام پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے ہمارے آج اور ہمارے بچوں کے کل کیلئے اپنی جانوں کی قربانی دی۔

مفتاح اسمعیل کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن والے علاقوں سے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی، حکومت اس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتی ہے کہ ضرورت کی اس گھڑی میں ہم اپنے شہریوں کی بحالی اور تعمیرنو کیلئے حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی اور بجٹ 19-2018 میں اس مقصد کیلئے 90 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔