سفارتی حماقت
پاکستان کا معامله بھی عجیب ہے، جس میلے سے آمدنی متوقع ہو اسی پر پہرا بیٹھا دیتے ہیں۔ نئی آنے والی حکومت کی جانب سے حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے زور و شور سے اقدامات نظر آ رہے ہیں اور یہ سب کچھ اس حکومتی اعلان کے تحت کیا جا رہا ہے جس کہ مطابق تمام غیر ترقیاتی اخراجات میں تیس فیصد کی کمی لانی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس اور وزارتوں کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی کا ارادہ سامنے آیا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ وزیروں کی فوج ظفر موج کے بجائے قلیل تعداد پر اکتفا کیا گیا ہے کیونکہ زیادہ وزیروں کا مطلب ہے اخراجات میں اتنا ہی اضافہ۔
پھر پیپلز پارٹی کی مثال بھی سامنے تھی کہ وزیروں مشیروں کی اتنی فوج اکٹھی کر لی گئی کہ عجیب الخلقت وزارتیں دیکھنے میں آئیں۔ آخری دنوں میں تو یہ ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں ایک وزارت صرف ان وزیروں کی فوج ظفر موج کو سنبھالنے کے لئے نہ بنانی پڑ جائے۔
موجودہ حکومت کے سامنے معیشت کا جو مردہ پڑا ہوا ہے اس میں جان پھونکنے کے لئے حکومت کی سنجیدگی سب سے ضروری ہے۔ اگرچہ اس کا اظہار ان غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کا اعلان سے کیا تو گیا ہے لیکن ڈر ہے کہ کہیں اس چارہ مشین میں گھن کے ساتھ گیہوں بھی نہ پس جایے۔ وہ گیہوں جو ہماری معیشت کے لئے بہت ضروری ہے۔
پاکستان کے حکمران دنیا کو تو یہی کہتے ہیں کہ 'ایڈ نہیں ٹریڈ' لیکن خود ایسے اقدام کر رہے ہیں کہ اس ٹریڈ کا دروازہ بند ہو جائے۔ سنا ہے کہ اعلان کردہ تیس فیصد اخرجات میں کمی کی زد میں وزرت خارجہ بھی آ رہی ہے۔
اس سلسلے میں جو ایک محیر العقول فیصلہ سامنے آ رہا ہے وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے اس فیصلے کے تحت پاکستان کے غیر ممالک میں قائم تقریباً 22 مشنز کو بند کرنے کا ارادہ ہے۔
اس وقت پاکستان کے صرف 70 ملکوں میں سفارت خانے ہیں۔ بجائے یہ کہ ان سفارت خانوں کی کرکردگی بہتر بنانے کے لئے کوئی پالیسی سامنے لائی جاتی، اس شاخ کو ہی کاٹنے کا ارادہ کیا جا رہا ہے۔
لگتا ہے کہ وزارت خارجہ جناب طارق فاطمی اور جناب سرتاج عزیز کی وزارت کے معاملات میں رسہ کشی کی جنگ میں اتنی مگن ہے کہ وہ اس طرح کے 'ڈنگ ٹپاؤ' اقدامات سے ہی وزیراعظم کے سامنے نمبر بنانے پر اکتفا کر رہی ہے۔
ابھی ابتدائی طور پر جن پانچ ممالک میں سے سفارت خانوں کو ہٹایا جا رہا ہے ان میں ماریشس، چلی، سربیا، بوسنیا اور نائیجر شامل ہیں۔ چلی کا تعلق براعظم جنوبی امریکا سے ہے جہاں کی منڈیاں پاکستان کی مصنوعات سے ناواقف ہیں۔
بجائے کہ اس ملک میں سفارت خانے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے مستعد اور لائق عملہ کا انتخاب کیا جاتا اور تجارتی اثر میں اضافہ کیا جاتا وہاں کی منڈی کو سلام داغ کر اپنا ہی بوریا بستر لپیٹنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
افریقی ملک نائیجر بھی کچھ اسی قسم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان ان ممالک کو ان کی ضرورت کی مصنوعات اپنے ہاں سے تیار کر کے بھجوا سکتا تھا جس سے ایک جانب تو ہماری اپنی معیشت کو سہارا ملتا دوسرا روزگار کے مواقعہ بھی پیدا ہوتے۔
اب سربیا کے معاملہ ہی کو لیجیۓ، پاکستان وہاں سے گزشتہ سال تک، اخباری اطلاعات کے مطابق، اسلحہ اور دفاعی سامان خریدنے میں دلچسپی رکھتا تھا تاکہ روایتی اسلحہ فروشوں پر کم سے کم انحصار کیا جا سکے۔ اب اس طرح سربیا سمیت بوسنیا میں سفارت خانے بند کرنے سے آپ مشرقی یورپ کے دو ممالک کی منڈیوں سے ہاتھ دھونے والے ہیں۔
ان سفارت خانوں کو صرف تجارتی مشن بنا کر اور کم سے کم عملہ کو رکھ کر ایک ہدف دے دیا جاتا کہ آپ نے اتنے عرصے میں پاکستان میں اس ملک کی جانب سے اتنی سرمایہ کاری کا بندوبست کرنا ہے۔
پھر پاکستان کو آج جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں تو آپکو زیادہ سے زیادہ ملکوں تک اپنا موقف پہنچانا ہے۔ وزیر اعظم حال ہی میں چین کے دورے سے آئے ہیں۔ اسی قسم کا ایک دورہ جنوبی امریکا کا بھی کیا جانا چاہیے جہاں ایک کثیر آبادی پاکستان کی مصنوعات کے لئے پرکشش منڈی ہیے۔
اگر آپکے سامنے پہلا ہدف ملکی معیشت سمبھالنا ہے تو آپکو دنیا کو تجارتی نگاہوں سے دیکھ کر اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی۔ گوادر کی بندرگاہ پورے مغربی کرہ ارض اور چین کے درمیان پل کا کام دے گی۔ جن ممالک کے سفارت خانوں کی چھٹی کی جا رہی ہے یقیناً چین ان سے تجارت کر رہا ہو گا۔ اگر اس تجارت کو گوادر کے راستے پر ڈال دیا جائے تو ہمارا بطور راہداری کے کردار بھی دنیا کے سامنے آ جائے گا۔
حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد اس حماقت سے توبہ کرے کیوں کہ ابھی تو آپ کہنے کو اخراجات میں کمی کر لیں گے لیکن مستقبل میں اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔