انہوں نے بتایا کہ ’مالی سال 18-2017 میں مہنگائی کی شرح 7.89 فیصد سے کم ہو کر 3.8 فیصد رہی، زرعی ترقی 3.81، صنعتی ترقی 5.8 اور بےروزگاری کی شرح 5.79 فیصد رہی۔‘
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جولائی سے مارچ تک مہنگائی کی اوسط شرح 3.78 فیصد رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 4.01 فیصد تھی۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے افراط زر کو 7 سے 8 فیصد کے ایک ہندسے میں رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رواں مالی سال صارفین قیمت انڈیکس بڑھ کر 4.6 فیصد پر آگیا جو رواں مالی سال کے آغاز سے زیادہ تھا۔‘
مالی پوزیشن رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں مالی سال میں جولائی سے دسمبر کے دوران ملک کے کُل محصولات 19.8 فیصد کے اضافے سے 23 کھرب 80 ارب روپے ہوگئی (مجموعی ملکی پیداوار کا 6.9 فیصد) جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 19 کھرب 90 ارب روپے (مجموعی پیداوار کا 6.2 فیصد) تھی۔
اسی طرح مالی سال 2017-18 میں جولائی سے دسمبر تک کُل اخراجات 14 فیصد اضافے سے 31 کھرب 80 ارب روپے (جی ڈی پی کا 9.2 فیصد) رہے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 27 کھرب 90 ارب روپے (جی ڈی پی کا 8.7 فیصد) تھے۔
رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں مالی خسارے کو جی ڈی پی کے 2.3 فیصد تک محدود کیا گیا جس کی بڑی وجہ اخراجات کے مقابلے میں محصولات میں اضافہ تھا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ’ملک کا نیٹ قرضہ 60.2 فیصد سے بڑھ کر 61.4 فیصد ہوگیا جبکہ بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا 21.4 فیصد سے کم ہو کر 20.5 فیصد رہا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے جو بیرونی قرضہ حاصل کیا اسے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے خرچ کیا جائے گا جنہیں پچھلی حکومتوں نے ادھورا چھوڑا تھا۔‘
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ’2013 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ریونیو ایک ہزار 946 ارب روپے تھا، رواں سال اس کا ریونیو 3 ہزار 900 ارب سے زائد ہے، جبکہ موجودہ مالی سال میں 3900 ارب سے زائد کا ریونیو جی ڈی پی کا 11 فیصد ہوگا۔‘
تجارت مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’رواں مالی سال ملکی برآمدات میں 12 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ درآمدات کمی کے بعد 16.6 فیصد پر آگئی جو مالی سال کے آغاز میں 48 فیصد تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’رواں مالی سال برآمدات 24 ارب 50 کروڑ ڈالر رہیں اور 180 ارب روپے کے پیکیج سے برآمدات میں اضافہ ہوا، اسی طرح مالی سال 18-2017 میں درآمدات میں بھی اضافہ ہوا اور یہ 53 ارب 10 کروڑ ڈالر رہیں۔‘
اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی درآمدات کو روکنے کے لیے اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی بھی عائد کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ادائیگیوں کا توازن بھی کیپیٹل سامان اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے تناؤ کا شکار رہا، جبکہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ بھی درآمدی بلوں میں اضافے کا باعث بنا۔
تاہم برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی اور ترسیلات میں اضافہ جاری اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے ناکافی ہے۔
رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی 4 ارب 50 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔
انفراسٹرکچر سروے رپورٹ کے مطابق پاور جنریشن اینڈ ٹرانسمیشن، اور گیس کی تقسیم کے منصوبوں میں حکومت کی فکسڈ سرمایہ کاری میں مالی سال 2013 سے 2014 تک کئی گناہ اضافہ ہوا اور 12 ہزار 230 میگاواٹ توانائی کے کُل 35 منصوبے سسٹم میں شامل کیے گئے۔
فروری 2018 تک پاور جنریشن کی نصب صلاحیت بڑھ کر 29 ہزار 573 میگاواٹ ہوگئی تھی، جو ایک سال قبل کے 22 ہزار 812 میگاواٹ کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنا منتخب ایوان کی ذمہ داری ہے، صوبے جو بھی سیاست کرلیں بجٹ دیں گے جبکہ ہم نے بجٹ میں اگلی حکومت کے نئے منصوبوں کے لیے 100 ارب روپے مختص کر دیئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری حکومت نے تربیلا توسیعی منصوبہ مکمل کیا، لواری ٹنل کا افتتاح بھٹو نے کیا لیکن اسے مکمل ہم نے کیا، جبکہ نیلم جہلم منصوبہ مشرف کے زمانے میں شروع ہوا اور اسے بھی ہم نے مکمل کیا۔‘
سماجی اشارے رپورٹ کے مطابق صحت کے شعبے میں وفاقی اور صوبائی سطح پر مجموعی طور پر اندازے کے مطابق 384 ارب 57 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، جو مالی سال 2016-17 کے 291 ارب 90 کروڑ روپے مقابلے میں 31.75 فیصد زیادہ ہیں اور ایک مثبت پیشرفت ہے۔
مالی سال 2016-17 میں تعلیم کے شعبے میں عوامی اخراجات جی ڈی پی کا 2.2 فیصد تھا، جبکہ 2015-16 میں یہ شرح 2.3 فیصد تھی۔ اعداد و شمار کے حوالے سے تعلیم سے متعلق اخراجات 2016-17 میں 5.4 فیصد اضافے سے 699.2 ارب روپے رہے جو 2015-16 میں 663.4 ارب روپے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبائی حکومتیں بھی اپنے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں سے بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کر رہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی