پاکستان

عدالت نے پی ٹی اے کو گلگت بلتستان میں سروس فراہم کرنے سے روک دیا

فوج کے ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کے ادارے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں عدالت نے حکم امتناعی جاری کردیا۔

اسلام آباد: پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے گلگت بلتستان میں نجی اداروں کو ٹیلی کمیونیکشن سروسز فراہم کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے کو عدالت نے کالعدم قرار دے دیا، جبکہ اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن ( ایس سی او) کو گلگت بلتستان میں آزمائشی بنیادوں پر 3 جی اور 4 جی سروسز کی فراہمی جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

گلگت بلتستان چیف کورٹ (جی بی سی سی) کے جسٹس حق نواز اور جسٹس محمد عمر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے آرمی کے ٹیلی کمیونیکیشن ونگ ایس سی او کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی، اور فریقین کو اعتراض کی صورت میں ایک ماہ کے اندر درخواست دینے کی ہدایت کی۔

ڈان کو موصول شدہ مقدمے کی نقل کے مطابق، 18 اپریل 2018 کو، گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کی دفعہ 71 کے تحت، پی ٹی اے کی جانب سے موبائل کمپنیوں کو پہاڑی علاقے میں 3 جی اور 4 جی کی سروسز کی اجازت دینے کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں مدعی کے وکیل عدنان حسین کی جانب سے مقدمے میں گلگت بلتستان کونسل، پی ٹی اے، فریکوئینسی ایلوکیشن بورڈ اور گلگت بلتستان حکومت کو فریق بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں تھری، فور جی صارفین کی تعداد 5 کروڑ سے متجاوز

واضح رہے موبائل کمپنی ’زونگ‘ نے لائسنس ملنے کے بعد 5 مئی کو گلگت بلتستان میں 3 جی اور 4 جی سروسز فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مواصلاتی رابطے فراہم کرنے میں ایس سی او کی اجارہ داری قائم ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس 23 فروری کو عدالت نے پی ٹی اے کی جانب سے جاری کیے گئے خط پر عمل درآمد روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا تھا جس میں فریقین کو ایک ماہ کے اندر اعتراضات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی، اور عدالت کی کارروائی کو اس وقت تک لیے ملتوی کردیا تھا۔

درخواست میں اعتراض کیا گیا کہ نجی کمپنی کو غیر قانونی اختیارات کے تحت 3 جی اور 4 جی سروسز فراہم کرنے کی اجازت دی گئی، گلگت بلتستان میں پی ٹی اے کا 3 جی اور 4 جی سروسز کی نیلامی کا مقصد مدعی کی جانب سے پہلے ہی آزمائشی بنیادوں پر جاری سروسز کو روکنا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے حتمی فیصلہ آنے تک فریقین کو موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کو کہا گیا، واضح رہے کہ صارفین کی جانب سے علاقے میں موجود ایس سی او کی خراب موبائل سروسز کی متعدد بار شکایات کی جاچکی ہیں، اور انہوں نے ٹیلی کام اتھارٹی سے مطالبہ کیاتھا کہ اس علاقے میں دیگر نجی موبائل کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے تا کہ وہ کوالٹی کی بنیاد پر بہتر سروس کا انتخاب کر سکیں۔

مزید پڑھیں: ‘سی پیک سے گلگت بلتستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا‘

حکومت کی جانب سے ایس سی او کی تمام مالی ضروریات پوری کرنے کے باوجود، ان کا دعویٰ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ٹیلی کمینیکشن سروسز کے محدود اختیارات کے سبب ایس سی او کو ہر سال ایک ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ہر مالی سال میں ان کے بجٹ کا 80 فیصد حصہ ایس سی او کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جبکہ انہیں مفت لائسنس، آمدنی اور اثاثوں پر ٹیکس سے استثنیٰ، درآمدات اور برآمدات پر سیلز اور کسٹم ڈیوٹیز کی مد میں چھوٹ اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے فنڈ دیے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

خیال رہے کہ آزاد کشمیر میں دفعہ 141 کے تحت اور گلگت بلتستان میں زیر دفعہ ،85 علاقے میں ٹیلی کمیونیکیشن سروسز فراہم کرنے کے لیے 1976 میں ایس سی او کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 26 اپریل 2018 کو شائع ہوئی۔