پاکستان

باہمت خاتون کی کہانی: بھیک مانگنے سے اپنے کاروبار تک

ہرانسان زندگی میں امتحانوں سے نبرد آزما ہوتا ہے، کچھ لوگ ایسی کہانی تخلیق کر ڈالتے ہیں کہ سب کے لیے مشعل راہ بن جائیں۔

ہر انسان زندگی میں بہت سے امتحانوں سے نبرد آزما ہوتا ہے، بعض افراد کٹھن مرحلے پر ٹوٹ جاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ایسی کہانی تخلیق کر ڈالتے ہیں کہ سب کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔

ہماری سماعتوں نے بہت بار یہ جملہ سنا ہے کہ فلاں شخص معذور تھا اور بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا، لیکن ایسی کہانی شاید ہی کبھی سننے کو ملی ہو، کہ کسی معذور خاتون نے مجبوری میں بھیک ضرور مانگی، لیکن پھر وقت کے ساتھ اس نجات حاصل کرکے اپنا کاروبار شروع کیا ہو۔

صاحبہ رانی کی عمر 40 سال ہے، پیدائشی طور پر دونوں پیروں سے معذور ہیں، اسی وجہ سے بہت سارے کاموں کے لیے ان کو کسی نہ کسی شخص کی مدد درکار ہوتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب بھی کسی جگہ جانا ہو تو وہ 3 پہیوں والی سائیکل پر سفر کرتی ہیں۔

اپنی کہانی سناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے علاقے تین تلوار کے قریب ایک مشہور مارکیٹ میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھیک مانگتی تھی۔

بھیک مانگنے کی وجوہات کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر بیمار ہو گئے تھے، وہ محنت مزدوری سے بالکل قاصر ہو گئے، اس دوران ہمارے اوپر بہت زیادہ قرض بھی ہو گیا تھا، اسی مجبوری میں باہر نکلی، اور بھیک مانگنا شروع کی۔

شوہر کی بیماری میں وہ 40ہزار روپے کی مقروض ہوئی تھیں، جس کی وجہ سے انہوں نے گھر سے نکل کر کچھ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

جس زمانے میں صاحبہ رانی بھیک مانگ کر اپنا گھر چلا رہی تھیں، وہ اس کام سے بالکل مطمئن نہیں تھیں، ان کا کہنا تھا کہ مجھے بھیک مانگ کر خوشی نہیں ہوتی تھی، میں چاہتی تھی کہ اس کام سے نکل کر اپنا کاروبار کر سکوں۔

وہ اپنی خواہش بتاتی ہیں کہ میں سوچتی تھی کہ گھر کے پاس کوئی دکان ہو، جس میں کاروبار کرکے میں کفالت کے قابل ہو سکوں، لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔

صاحبہ رانی وہ زمانہ یاد کرکے آبدیدہ ہو جاتی ہیں، جب انہوں نے پہلی بار کاروبار شروع کرنے کے لیے چھوٹی موٹی اشیاء منگوائی تھیں، وہ کہتی ہیں کہ میں نے کنگی، کیچر، پونی اور پین وغیرہ منگوائے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال تک میں چھوٹا موٹا سامان بیچتی رہی، لیکن اس کی فروخت میں بچت نہیں ہو رہی تھی، بلکہ مستقل نقصان ہی ہوتا رہا۔

ایک سال چھ ماہ کی کوشش کے بعد انہوں نے کاروبار تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر خواتین کے اوڑھنے کی چادریں اور شال بیچنا شروع کر دیں۔

صاحبہ رانی کہتی ہیں کہ جب وہ بھیک مانگتی تھیں تو اس وقت 500 روپے تک دن میں جمع کر لیتی تھیں، لیکن جب اپنا کاروبار شروع کیا تو اس سے بھی اب 500 سے 600 روپے یومیہ کما رہی ہیں، کبھی کبھی تو 1000 سے 2000 روپے منافع بھی ہو جاتا ہے، جس سے ان کا گھر چل جاتا ہے۔

اپنی گھریلو زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری شادی کو 15 سال ہو گئے ہیں، جب میں بھیک مانگتی تھی تو اس وقت اکثر میرے شوہر مجھ سے ناراض رہتے تھے۔

صاحبہ رانی اپنے شوہر سے بہت محبت کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں، کیونکہ انہوں نے پسند کی شادی کی تھی، جبکہ وہ نہایت جزباتی انداز میں بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر انہیں ایک بار حج کروا چکے ہیں، تاہم وہ دوسری بار حج پر جانے کی خواہشمند ہیں۔

ان کی آنکھوں میں اس وقت آنسو آ جاتے ہیں جب وہ کہتی ہیں کہ کاش حکومت ان کو ایک چھوٹا سا گھر فراہم کر دے، کیونکہ وہ کرائے کے گھر میں رہتی ہیں، ان کا اپنا گھر ہوگا تو وہ سکون سے زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گی۔