جنگل اگاکر کراچی کو گرمی سے بچانے کی کامیاب کوشش
ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور شہری آبادیوں میں اضافے کی وجہ سے لوگ کنکریٹ کی عمارتوں میں محصور ہوتے جا رہے ہیں، تو ہمارے شہر اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
ان منفی اثرات میں نہ صرف پہلے سے زیادہ بے آرامی اور تھکاوٹ شامل ہے، بلکہ سانس کے امراض، سر درد، ہیٹ اسٹروک اور یہاں تک کہ گرمی سے ہلاکت بھی شامل ہیں۔
گرمی سے ہلاکت سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لوگ بخوبی واقف ہیں جب 2015ء میں 1200 سے زائد افراد گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔
پاکستان ہارٹیکلچر سوسائٹی کے رکن رفیع الحق کہتے ہیں کہ درختوں اور سبزے کی کمی کی وجہ سے ماحول کو قدرتی طور پر ٹھنڈا رکھنے میں فائدہ مند آبی بخارات بننے کے عمل میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں شہری حکومتیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم اور مہنگے اقدامات اٹھا رہی ہیں جن میں سڑکوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہلکے خاکستری رنگ سے رنگنا، چھتوں پر سبزہ اگانا، سولر پینلز لگانا یا پھر چھتوں کو سفید رنگ کرنا شامل ہیں۔ اس طرح کے کئی پالیسی فیصلے لیے جا رہے ہیں تاکہ درجہ حرارت میں اضافے پر قابو پایا جا سکے۔
مگر ایک آسان اور سادہ حل جنگلات کی بحالی ہوسکتا ہے۔
اربن فاریسٹ (شہری جنگل) کے منصوبے کے بانی شہزاد قریشی نامی ایک نوجوان ہیں جنہوں نے کراچی میں ایک چھوٹا سا جنگل اگا کر یہ دکھا دیا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن نہیں ہے۔