پاکستان

اداروں کو مداخلت نہیں کرنا چاہیے، میڈیا حد سے تجاوز کر رہا ہے، خورشید شاہ

میڈیا کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ جس بات سے ریاست کو نقصان ہو وہ نہیں کرنا چاہیے، قائد حزب اختلاف

پیپلز پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ صرف اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ جس چیز سے ریاست کو نقصان ہو وہ بات نہیں کرنا چاہیے اور میڈیا کو یہ بات طے کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام نیوز آئی میں موجودہ حالات میں آزادی اظہار رائے پر بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میڈیا حد سے تجاوز کر رہا ہے۔

عدلیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس یا عدلیہ کو اس طرح بیان نہیں دینا چاہیے، وہ کسی بات پر فیصلہ دے سکتے ہیں جو کہ انھیں عدالت میں دینا چاہیے لیکن اس طرح باتیں کرنے سے ملک میں انتشار پیدا ہو گا کیونکہ یہ ایسے ادارے ہیں جن کے لوگ نہیں بلکہ فیصلے بولتے ہیں۔

مزید پڑھیں :چیف جسٹس کا کراچی کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا نوٹس

قائد حزب اختلاف نے مزید کہا کہ مجھے اس بات پر اعتراض ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اگر عدالت میں سماعت کے دوران بات کرتے ہیں تو وہ کارروائی کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ اگر کوئی بیان عدالت سے باہر دیا جاتا ہے تو وہ تقریبا سیاسی ہی سمجھا جاتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔

خورشید شاہ نے مزید کہا کہ ہر ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے اور دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:ملک بھر کے نجی میڈیکل کالجز میں داخلوں پر پابندی کا حکم

انھوں نے کہا کہ ملک میں تباہی کی بنیاد ضیاء الحق کے دور میں رکھی گئی تھی، اس ملک کا معاشرہ تباہ کر دیا اور کرپشن کا نظام متعارف کروایا جس کے بعد دو مرتبہ دھچکا کھائی ہوئی پارلیمنٹ کرپٹ نظام سے ایک دم نہیں لڑ سکتی۔

مزید پڑھیں:آلودہ پانی سے سندھ کے لوگ کینسر اور ہیپاٹائیٹس کا شکار ہو رہے ہیں، چیف جسٹس

واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے مختلف اداروں کی کارکردگی اور عوامی مسائل پر از خود نوٹس لینے پر سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت اکثر سیاست دانوں کی جانب سے اعتراض اٹھایا جا رہا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت ’ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی بدترین ڈکٹیٹر شپ قائم ہے اور ملک میں جو ہورہا ہے وہ کسی جوڈیشل مارشل لاء سے کم نہیں‘۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’22 کروڑ عوام کی زبان بندی کسی طور پر قبول نہیں، اتنی پابندیاں مارشل لاء میں نہیں لگائی گئیں جو اب دیکھنے میں آرہی ہیں، آئے روز ایسے فیصلے دیئے جاتے ہیں، جن کی کوئی منطق نہیں ہوتی‘۔

نواز شریف نے چیف جسٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف جسٹس میاں ثاقب نثار روز ہسپتال جاتے ہیں اور سبزیوں کے نرخ پر بات کرتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ کسی مظلوم کے گھر بھی جائیں، جس کے مقدمے کا فیصلہ 20 سال سے نہیں ہوا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ چیف جسٹس کا کام نہیں کہ وزیر اعلیٰ کو طلب کرے اور حکومت کو قطار میں کھڑا کردے، حالیہ 3 فیصلے جسٹس منیر کے فیصلے سے بھی بدترین ہیں۔