پاکستان

سپریم کورٹ: توہین عدالت کی سزاؤں پر ہر صورت عمل درآمد کرانے کا عندیہ

اس معاملے میں اس وقت تک سزا برقرار رکھی جاسکتی ہے جب تک ملزم عدالت کے سامنے خود کو بے قصور ثابت نہیں کردیتا، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں بڑی تعداد میں توہین عدالت کے مقدمات زیر سماعت مقدمات پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئین کے آرٹیکل 204 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ توہین عدالت کے مرتکب ہونے والے شخص کی سزا اس وقت تک برقرار رکھی جاسکتی ہے جب تک وہ خود عدالت کے سامنے اپنی غلطی تسلیم نہ کرلے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس کی جانب سے یہ ریمارکس دیئے کہ ’ہم آئین کے آرٹیکل 204 کی تشریح پر غور کر رہے ہیں، جس کے مطابق توہین عدالت آرڈیننس 2003 کی دفعات کے تحت 6 ماہ کی سزا اس وقت تک برقرار رکھی جاسکتی ہے جب تک ملزم عدالت کے سامنے خود کو بے قصور ثابت نہیں کردیتا‘۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: دانیال عزیز پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان

انہوں نے یہ ریمارکس 13 مارچ 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے بدتمیزی کرنے والے پولیس افسران اور اسلام آباد انتظامیہ کے عہدیداروں کی جانب سے دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران دیئے۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے توہین عدالت کی درخواستیں پر سماعت کا آغاز آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت کیا گیا اور اس موقع پر توہین عدالت آرڈیننس 2003 کو بھی پڑھا گیا، جس کے مطابق آئین کا آرٹیکل 204 اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ عدالتوں کو متنازع بنانے والے افراد کے خلاف توہین عدالت کے چارجز لگائے جائیں گے جبکہ توہین عدالت آرڈیننس کی دفعہ 5 ملزم کو 6 ماہ قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ بڑھانے کا اختیار دیتی ہے۔

واضح رہے کہ 2003 کے توہین عدالت کے قانون کے مطابق ایسی درخواستوں کی سماعتیں 5 رکنی یا لارجر بینچ کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت میں ایک ماہ کی سزا کاٹنے والے نہال ہاشمی کو ایک اور نوٹس

یاد رہے کہ یہ اپیلیں یکم نومبر 2007 کے سپریم کورٹ کے اس حکم کے خلاف دائر کی گئی تھیں، جس میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے اپنے اوپر لگے الزامات کی وضاحت دینے سے روکنے اور بدتمیزی کرنے پر اسلام آباد کی انتظامیہ کے سینئر افسران اور پولیس اہلکاروں کو سزا دی گئی تھی، تاہم بعد ازاں ملزمان کی جانب سے سزا کے خلاف اپیل دائر کیے جانے پر اس سزا کو 15 روز کے لیے معطل کردیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں 10 رکنی بینچ نے متعلقہ محکموں کو درخواست گزاروں کے خلاف اپیلوں کے زیر التوا رہنے تک کسی قسم کی کارروائی کرنے سے روک دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں دوران سماعت چیف جسٹس کی جانب سے سینئر وکیل شیخ احسان الدین کو یہ تجویز دی گئی کہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے پوچھیں کہ آیا وہ ان ملزمان کو معاف کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کیلئے مہلت

اس پر سینئر وکیل کی جانب سے سابق چیف جسٹس سے رابطہ کرکے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ افتخار چوہدری اس معاملے پر کچھ نہیں چاہتے لیکن معاملہ ادارے کے وقار سے تعلق رکھتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس کی جانب سے ریمارکس دیئے کہ کہ اس معاملے کو قانون کے تحت دیکھا جائے گا، جس کے بعد اس معاملے کو 5 رکنی لارجر بینچ کو بھیج دیا گیا۔