ایک اخبار نویس کا المیہ
جوں ہی کسی کو یہ پتا چلتا ہے کہ ہم ایک اخبار نویس ہیں، تو چھوٹتے ہی خواہش ظاہر کی جاتی ہے کہ کسی طرح ان کے لیے بھی ’پریس کارڈ‘ کی ’جگاڑ‘ کردی جائے، تاکہ وہ ٹریفک سگنل توڑنے کی سہولت، ڈبل سواری کا استثنا یا پولیس گردی سے تحفظ حاصل کرسکیں اور بہت سے اس کے ذریعے دوسروں پر رعب کے مظاہرے بھی کرنا چاہتے ہیں۔
بمشکل انہیں یہ باور کرانا پڑتا ہے کہ حضور بے شک ہم ایک اخبار سے وابستہ ہیں، لیکن ہم اس طرح کی کوئی سہولت یا استحقاق نہیں رکھتے کہ کسی ایسے فرد کا کارڈ بنوائیں، جو ادارے کا ملازم ہی نہ ہو بلکہ ہمیں تو زندگی کی پہلی تھانہ خوری بھی اسی بناء پر کرنی پڑی تھی کہ ہم ہزار کوشش کے باوجود اپنا پریس کارڈ نہ بنوا سکے تھے، کیوں کہ ابھی زیرِ تربیت (ٹرینی) تھے، اور ’پریس‘ کے ترنگ میں آکر ڈبل سواری پر گھر لوٹ رہے تھے کہ دھر لیے گئے، مگر سامنے والوں کو لگتا ہے کہ انہیں ہم نے ٹرخا دیا ہے۔
بہت سے کرم فرما چاہتے ہیں کہ کسی طرح اُن سے متعلق خبریں، تصاویر یا ان کے لکھے ہوئے مضامین ہمارے اخبار کی زینت بن سکیں۔ مضامین کے ذیل میں ہم اپنی سی کوشش کرکے اسے قابلِ اشاعت بنا دیتے ہیں، لیکن خبروں یا خبری تصاویر کے ذیل میں ہم دوسرے شعبے کے ذمے داران کے محتاج ہوتے ہیں، ان سے ہم فقط درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ ہم آپ کے ادارے میں ہوتے ہیں، تو براہِ مہربانی ذرا دیکھ لیجیے گا۔
اگر یہ مواد شایع ہوجائے تو بہت سے ستم ظریفوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کے لیے اس دن کا اخبار بھی روانہ کیا جائے، بعض کی خواہش ہوتی ہے کہ اس دن کے اخبار کے کم سے کم 4، 6 نسخے تو بھجوائیں۔ مشاق لوگ پیشگی تاکید کردیتے ہیں کہ جب ان کی تحریر شامل ہو تو انہیں مطلع بھی کیا جاوے۔ ارے بھائی، اتنا تو خود کرلو، کہ کسی چیز کی اشاعت متوقع ہو تو اخبار پر نظر رکھو۔
مزید پڑھیے: صحافی کون؟
اب کسی کے گھر کے سامنے گندگی بہت ہے، بجلی غائب ہے، پانی نہیں آرہا، پولیس تنگ کر رہی ہے، کسی محکمے میں ترقیاں نہیں ہورہیں، ذرا خبر تو چھپوا دو۔ قریبی حلقوں کے افراد اس قدر امید سے بات کرتے ہیں کہ اپنے آپ شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ ہمارا اُن سے یہ کہنا کہ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے، انہیں ٹال مٹول معلوم ہوتی ہے، مگر ہم انہیں یہ سمجھا نہیں پاتے کہ آپ کا مسئلہ بے شک بہت بڑا ہے، لیکن کسی بھی ادارے سے وابستہ ایک ادنیٰ اور سیدھا سادا صحافی بھلا بساط ہی کتنی رکھتا ہے؟ وہ کسی بھی مسئلے پر خبر کے لیے متعلقہ ذمے داران سے درخواست تو کرسکتا ہے، لیکن انہیں مجبور نہیں کرسکتا۔
وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ منطقی اعتبار سے ایک اخباری کارکن اپنے نگراں، مدیر اور ادارے کے حکام کو جواب دہ ہوتا ہے، وہ اپنے محدود اختیارات میں اُن کی لامحدود خواہشات کیوں کر پوری کرسکتا ہے۔ انہیں باقاعدہ اپنے ادارے کی انتظامی تقسیم سمجھانا پڑتی ہے کہ ’بھائی ہمارا تعلق براہِ راست شعبۂ خبر سے نہیں، پھر ہم جس شعبے میں ہیں، وہاں بھی کوئی چیز فقط ہماری مرضی یا خواہش پر شایع یا نشر نہیں کی جاسکتی۔ اگر گلشن اقبال کے کسی محلے میں کوئی بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے اور یقیناً وہ وہاں کے مکینوں کے لیے بہت بڑا سر درد بھی ہے، لیکن کوئی اخبار یا چینل صرف گلشن اقبال تک تو محدود نہیں، یہ تو ہماری پیشہ ورانہ مجبوری ہے کہ ہمیں اپنی جگہ اور وقت کو اہمیت کے لحاظ سے بانٹنا پڑتا ہے۔
اب آئیے انٹرویو کی طرف، جس کے لیے ایک شریف اخبار نویس کو کس قدر پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کا تو یہ موقع نہیں، فی الوقت رونا صرف اس بات کا ہے کہ کسی نام وَر شخصیت کے انٹرویو کے وقت لینے سے اس کی اشاعت تک کی طویل مشقت میں ایمان داری کے پسینے آپ بہاتے ہیں، جب کہ اس کی اشاعت کے بعد آپ کا کوئی ہم پیشہ ’عبدالغفور‘ کے سامنے اپنا کالر ہلاتے ہوئے یہ جتا دیتا ہے، کہ انٹرویو کے لیے ’بندہ‘ دراصل اُس نے بھیجا تھا۔
مزید پڑھیے: صحافی اور مکینک میں فرق
یہ ہمارے پیشہ ورانہ المیے کی انتہا ہے کہ اکثر استحصال زدہ صحافی کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوپاتی کہ ’کالی بھیڑوں‘ نے کس طرح اس کی محنت کو غیر پیشہ ورانہ اور سفاک طریقے سے اپنے پیٹ میں اتار لیا، جب کہ شریف صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی پُرخلوص انجام دہی کے بعد ضمیر کے سامنے سرخرو بیٹھا رہتا ہے۔
اگلا حصہ یہاں پڑھیں۔
بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔