پاکستان

چاند دیکھنے کا معاملہ: حکومت کا مفتی پوپلزئی کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ

ہم حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ملک میں بیک وقت دو عیدیں نہیں دیکھ سکتے، وزیر مذہبی امور

رویت ہلال کمیٹی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کے بجائے شوال کا چاند دیکھنے کے معاملے کو تنازع سے بچانے کے لیے حکومت نے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران بیک وقت دو عیدیں منائی جاتی رہیں ہیں کیونکہ پشاور میں مسجد قاسم علی خان کے عالم دین مفتی شہاب الدین پوپلزئی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شوال کے چاند کا علیحدہ اعلان کردیتے ہیں۔

پارلیمنٹ کی کارروائی کا وقت نہ ہونے کے باعث حکومت کو کمیٹی کی جانب سے بل نہیں مل سکتا جسے دونوں ایوان سے منظور کرایا جاسکے جس کی وجہ سے وزارت مذہبی امور نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کو وزارت داخلہ بھیجا جائے۔

مزید پڑھیں: 2018 میں کتنے چاند اور سورج گرہن ہوں گے؟

وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے اور ہم حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ملک میں دو عیدیں ہوتی نہیں دیکھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسائل صرف ایک دو شخصیات کے ساتھ ہیں اور وزارت داخلہ مفتی پوپلزئی کو اس سال بھی دبئی بھیج دے گی تاکہ عوام عید ایک ساتھ منا سکیں۔

حکومت کی مدت 31 مئی کو ختم ہورہی ہے جبکہ عید الفطر جون کے درمیانی حصے میں ہوگی تاہم وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ کچھ چیزیں پارٹی کی حد سے باہر ہیں اور جو بھی اگلی حکومت بنائے گا وہ بھی اس ہی طرح کی حکمت عملی اپنائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: رویت ہلال کمیٹی ختم کرنے کی تجویز

حکومت کو کئی سالوں سے اس مسئلے کا علم ہونے کے باوجود کوئی قانون منظور نہیں کیا جاسکا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر مذہبی امور کی جانب سے کیبنٹ سیکریٹریٹ کو دسمبر 2017 میں قانون کا ڈرافٹ بھیجا گیا تھا تاہم اسے اب تک اٹھایا نہیں گیا ہے۔

سردار یوسف کا کہنا تھا کہ 9 رکنی رویت ہلال کمیٹی کو 1974 میں قومی اسمبلی کے منظور کردہ قرارداد کے تحت قائم کیا گیا تھا۔

تاہم اب اس کمیٹی میں 26 ارکان ہیں لیکن اسے اب تک آئینی اور قانونی حیثیت نہیں دی گئی ہے اور اس کمیٹی کے اراکین کے انتخاب کے لیے بھی کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: رویت ہلال کمیٹی کو قانونی شکل دینے کی ہدایت

اس معاملے کو پہلی مرتبہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور سینیٹر حافظ حمداللہ کی جانب سے اٹھایا گیا تھا۔

جون 2016 میں انہوں نے وزارت سے اس معاملے کو حل کرنے کا کہتے ہوئے کہا تھا کہ اس تنازع کی اصل وجہ یہ ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کی آئینی و قانونی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

حکومت کو اس معاملے پر کاغذی کارروائی مکمل کرنے میں 19 ماہ کا وقت لگا جس کے بعد انہوں نے دسمبر 2017 کو بل کا ڈرافٹ وفاقی کیبنٹ میں منظوری کے لیے بھیجا تھا۔

پیش کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے پہلے چاند کا اعلان کرنے والے ٹی وی چینلز کو 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا جبکہ اس کی لائسنس کی معطلی کے حوالے سے بھی دیکھا جائے گا۔

ڈرافٹ کیے گئے بل میں تجویز کی گئی تھی کہ چاند کے غلط شواہد دینے والے کو 6 ماہ جیل اور 50 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

دریں اثنا اراکین پارلیمنٹ نے حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لینے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے رکن علی محمد خان کا کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہونی چاہیے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ چاند کا اعلان کرے اور اسی دوران اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا اس معاملے پر سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ سے غیر ریاستی عناصر کو چاند دیکھنے میں کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 21 اپریل 2018 کو شائع ہوئی