سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس: ڈی آئی جی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر سماعت کے لیے فل بینچ تشکیل دے دیا گیا۔
جسٹس قاسم علی خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سردار احمد نعیم بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواستوں پر فل بینچ بنانے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس کے حکم پر ہائیکورٹ میں تشکیل دیا جانے والا فل بینچ دو ہفتوں میں درخواستوں پر فیصلہ سنائے گا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس
لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عبدالجبار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اعجاز حسن اعوان نے سانحہ ماڈل ٹاون استغاثہ کیس پر سماعت کی۔
عدالت میں استغاثہ کے مدعی جواد حامد کی جانب سے وکیل رائے بشیر احمد عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت نے گواہان اسٹور کیپر جاوید اور کیمرہ مین عظیم کے بیان کے علاوہ استغاثہ کیس کے مدعی جواد حامد کا بیان بھی قلمبند کر لیا۔
بیانات قلم بند کیے جانے کے بعد عدالت نے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔
عدالت نے طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر ڈی آئی جی کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا نوٹس
بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاون استغاثہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر کیس میں دو گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد جرح مکمل کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ استغاثہ کیس عوامی تحریک کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 12 سیاسی شخصیات، پولیس افسران، اہلکار اور ضلعی حکومت کے عہدیداروں کو فریق بنایا گیا تھا، تاہم عدالت نے استغاثہ میں سے سیاسی شخصیات کے نام ختم کر دیئے تھے۔
12 اپریل کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں 115 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔
یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔
آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔
بعدازاں حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کروائی، تاہم رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا، جس کا مطالبہ سانحے کے متاثرین کے ورثاء کی جانب سے متعدد مرتبہ کیا گیا۔
گزشتہ برس اگست میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم جاری
ان افراد کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔
تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو عام کردیا گیا۔