لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا پر ایک غیر اعلانیہ سینسرشپ نافذ کردی گئی ہے۔ یہ پابندیاں بلاشبہ وفاقی حکومت یا کسی ریگولیٹری ادارے کی طرف سے نافذ نہیں کی گئی، لیکن پھر بھی میڈیا کے ادارے فراہم کی گئی ہدایت کی پاسداری کرنے پر مجبور ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چند اہم اخبارات کی انتظامیہ نے سزا کے ڈر سے ’گائیڈلائنز‘ کے منافی مضامین کو شائع کرنا چھوڑ دیا ہے، جبکہ ٹی وی چینلز تو اس سے بھی زیادہ خطرے کی زد میں ہیں اور یہ خوف بے بنیاد نہیں۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں سے ایک ٹی وی چینل کو ’چند حساس مسائل پر بے باکی کا مظاہرہ‘ کرنے پر ’سزا‘ کے طور پر کیبل آپریٹرز نے بند کردیا ہے یا پھر اسے اہم نیوز چینلز کے نمبروں سے علیحدہ کردیا گیا ہے۔ اس طرح سے آواز دبائے جانے کا کام، جو کہ میڈیا کے ریگولیٹری ادارے پیمرا کی ہدایات کے منافی ہے، چھاؤنی کے علاقوں میں مؤثر انداز میں کیا جاتا ہے جہاں چند ’بلیک لسٹڈ’ اخبارات کی ترسیل کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی ان غیر قانونی اور اپنی مرضی کے اقدامات کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔
ہم جس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اسے چند تجزیہ کار سرائیت کرتے ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس کا تعلق صرف میڈیا پر بندش یا جبری گمشدگیوں کے بڑھتے واقعات سے ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق ’پوشیدہ طاقتوں‘ یا جنہیں اکثر اوقات نامعلوم افراد بھی پکارا جاتا ہے، کی سیاسی سازبازی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خیال سے بھی ہے۔ بلوچستان میں حالیہ سیاسی ری انجینئرنگ اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کو ’طے شدہ‘ قرار دینے جیسے الزامات نے اس اندیشے کو مزید تقویت بخشی ہے۔
مزید پڑھیے: نواز شریف کو عدلیہ سے کیا مسئلہ ہے؟
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی صفوں سے ارکانِ اسمبلی کی رخصتی کو بھی انتخابات سے قبل حکومتی جماعت کی اپنے قلعے پنجاب میں طاقت کو محدود کرنے کے ایک بڑے منصوبے سے جوڑا جا رہا ہے، لیکن یہ خدشہ مبالغہ آمیزی پر محیط بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اگر ہماری مبہم سیاسی تاریخ کو مدِنظر رکھا جائے تو ایسی سازبازی کوئی نئی چیز نہیں۔
گہرے ہوتے سیاسی بحران کے ساتھ جابریت کا ایک بڑھتا ہوا احساس بھی ہے اور اس کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کی بڑھتی ہوئی خوداعتمادی کے باوجود ریاستی اداروں کے کمزور ہوتے اختیارات ہیں، بلکہ انتظامیہ کے حلقہءِ اثر میں موجودہ حد سے زیادہ مداخلت سے بھی ڈیپ اسٹیٹ کو اپنی گرفت مضبوط کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
ڈیپ اسٹیٹ کو عام طور پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے معنوں میں لیا جاتا ہے لیکن یہ اصطلاح دیگر غیر انتخابی اداروں جیسے بیوروکریسی کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ اصطلاح کی تعریف یہ ہے کہ، ’ایسے ادارے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مخصوص مفادات کے تحفظ کی خاطر خفیہ طور پر کام کرتے ہیں اور منتخب ہوئے بغیر ملک پر حکومت کرتے ہیں۔‘
چونکہ ملک میں دہائیوں پر محیط طویل بلاواسطہ فوجی حکومت قائم رہی ہے اس لیے ملک میں کئی بنیادی آزادیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں، جن میں اظہارِ رائے کا حق بھی شامل ہے۔ آمر جنرلوں کی براہِ راست سینسرشپ سے لے کر سول حکومتوں کے دیگر طریقوں کے ساتھ دباؤ ڈالنے تک، میڈیا نے بڑی مشکل جھیلتے ہوئے یہاں تک کا سفر طے کیا ہے۔ بدقسمتی کے ساتھ پارلیمنٹ جیسے اداروں کے کمزور ہونے سے حکومت سے باہر بیٹھی قوتوں کو بنیادی حقوق حذف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مقامی سیاست میں گہرائی کے ساتھ دخل اندازی کا زبردست موقع مل گیا ہے۔
نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے سے ملک میں سیاسی بحران گہرا ہوچکا ہے اور کئی ایسے تنازعات بھی منظرِ عام پر آگئے ہیں جنہیں سنبھالنا انتہائی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش میں یہ قوتیں کسی بھی اختلافِ رائے کی آواز کو لگام دینے کی کوشش میں ہیں۔ داخلی اور خارجی سطح پر بڑھتے ہوئے چیلنجز کے باعث پابندیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کی غیر اعلانیہ سینسرشپ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوسکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق میڈیا اداروں کو قومی سلامتی کے مفاد کے نام پر ’تجویز‘ موصول ہوتی ہے کہ کیا نشر یا شائع کرنا چاہیے اور کیا نہیں، بلکہ دباؤ اس قدر شدید ہوسکتا ہے کہ بسااوقات بھلے ہی ایسی کوئی ’تجویز‘ نہ دی گئی ہو، مگر پھر بھی میڈیا اداروں کے مالکان اور ایڈیٹرز طاقتور حلقے کی حمایت میں سیلف سینسرشپ پر بھی اتر آتے ہیں۔
آزائ اظہار اور آزادئ پریس کے ساتھ ساتھ ووٹ کا حق اور منصفانہ ٹرائل کا حق ایک آزادانہ جمہوریت کے اہم ترین جزو ہیں۔ منتخب حکومت یا غیر منتخب ادارے کی جانب سے بنیادی حقوق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا آئین کے منافی ہے اور بلاشبہ یہ فیصلہ کرنا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا کام نہیں ہے کہ میڈیا کو کیا کور کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی پاکستان میں جمہوری تحریک کی بڑی کامیابیوں میں شمار ہوتی ہے اور آزاد میڈیا نے سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے میں مدد دی ہے۔
یقیناً، میڈیا کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور پروفیشنلزم کی اعلیٰ حیثیت کو بحال رکھنے کے لیے اخلاقی اصولوں کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اظہارِ رائے کی آزادی کے ساتھ احساسِ ذمہ دارای بھی نہایت ضروری ہے، مگر آزادی پر کوئی بہانہ بنا کر قدغن لگانے سے ایک بہتر اخلاقی کلچر کو پیدا کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ البتہ اس قسم کے سخت اقدامات سے مزید تقسیم بڑھے گی اور نان پروفیشنلزم کی حوصلہ افزائی ہوگی، مثلاً محض اپنے حق میں بات کرنے والے متوازی لچکدار میڈیا کو تشکیل دیے جانے کا ایک مبینہ اقدام
مزید پڑھیے: غیر حقیقی بحران سے حقیقی بحران تک
اس قسم کا سخت طریقہ کار نہ صرف جمہوریت کے لیے بلکہ ملکی سالمیت کے لیے بھی انتہائی نقصاندہ ہے۔ یہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سول سوسائٹی کے درمیان موجود فاصلے کو مزید بڑھانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ ملک ماضی میں پہلے ہی جمہوری حقوق کے دبائے جانے کی وجہ سے کافی قیمت ادا کرچکا ہے اور اب یہ مزید جمہوری عمل کی الٹ پلٹ برداشت نہیں کرسکتا۔
عام انتخابات کے دن کہ جب دوسری بار ایک منتخب حکومت اگلی حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی، اس دن کسی وجہ سے میڈیا پر کریک ڈاؤن کا کوئی اقدام انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات کھڑا کرسکتا ہے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اہم مسائل پر آزادانہ مذاکرے اور بحث و مباحثے سے ریاست میں اعتماد بڑھتا ہے۔ آزادانہ بحث و مباحثے کو دبانے سے بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے، یہ ایک ایسا سبق ہے جو ہم اپنی تاریخ سے سیکھنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
ایسا تو نہ ہونے کے برابر امکان ہے کہ جمہوری سیاسی عمل مکمل طور پر پٹری سے اتر جائے گا مگر ڈیپ اسٹیٹ کی سیاسی سازبازی میں مبیّنہ مداخلت کے حوالے سے بڑھتا ہوا خیال یہ خدشات پیدا کر رہا ہے کہ شاید ہم ’طے شدہ‘ اور ’بتائے گئے‘ سیاسی عمل کی جانب گامزن ہورہے ہیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون 18 اپریل 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔