نقطہ نظر

سندھ کی طلسماتی تکون

برا مت منایئے میرے پاکستان میں اسی طرح کی عوامی نمائندگی کو 'جمہوریت' کہا جاتا ہے

اور آج کی تازہ خبر یہ تھی کہ سندھ حکومت نے محکمہِ پولیس میں دی گئی آؤٹ آف ٹرن ترقیوں کے سپریم کورٹ کے فیصلے پہ نظرثانی کی درخواست جمع کروا دی ہے۔ عوامی نمائندگان کے اس اندازِ دلربائی سے انصا ف کے خون کو 'جمہوریت کا حسن' کہتے ہیں۔

حکومتِ سندھ میں اکثریت ان نمائندگان کی ہے جو افسر شاہی، مقامی وڈیرہ شاہی اور سیاستدانوں کے اس طلسماتی تکون کے گٹھہ جوڑ کی پیداوار ہیں جس نے کئی دہائیوں سے سندھ میں تبدیلی کی راہ کھوٹی کی ہوئی ہے۔

یہ طلسماتی تکونی ڈھانچہ کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ وڈیرہ بےزمین کسانوں کی صورت انسانی غلاموں کی اچھی خاصی کھیپ اپنے پاس رکھتا ہے۔ یہ بے زمین کسان جو صرف اسکی زمینوں پہ کام ہی نہیں کرتے بلکہ یہ انسانی ریوڑ انکے پکّے 'ووٹ بینک' کی مانند ہے۔ زمیندار سے حکم عدولی اس لیئے بھی ممکن نہیں کہ بصورتِ دیگر زمیندار ان کو اپنی زمینوں سے بے دخل کر دے گا۔

اس تکون کا دوسرا کونہ وہ سیاسی وڈیرہ ہے جو ایک طرف نچلی سطح کے زمیندار سے جڑا ہوا ہے تو دوسری طرف سیاسی وفاداریوں کے عوض ریاست کے اصلی تے وڈے حکمرانوں سے جوڑ توڑ کرکے اپنی سیاسی و سماجی طاقت سمیٹتا رہتا ہے۔

طلسم کا تیسرا بازو پولیس اور ضلعی انتظامیہ والی افسر شاہی ہے، جو اسکے جرائم کی پردہ داری کے کام آتی ھے تو دوسری طرف بدعنوانی کے ذریعے کبھی کبھار خود بھی کنگ میکر کا کام کرتی ہے۔

اس طلسماتی تکون کو اور مضبوط بنانے کے لیئے پچھلی کئی حکومتوں نے سونے پہ سہاگہ یہ کیا کہ افسر شاہی میں من پسند بھرتیوں کے لیئے پورے سروس اسٹرکچر میں بھرتیوں کے نظام کی ایسی تیسی کرتے ہوئے پورے سروس اسٹرکچر کو اکھاڑ پچھاڑ کر رکھ دیا۔

نا اہل اولاد، چچیروں، پھپھیروں و دیگر رشتے داروں کو کچھ اس طرح ان تمام مخصوص اداروں میں گھسیڑا گیا جن کو اللہ بخشے بابائے قوم نے عوام کی خدمت کے تصور سے جوڑنا چاہا تھا۔ کیا خبر تھی انہیں کہ انکے آنکھیں موندتے ہی عوامی اقتدار پہ قبضہ گیر طبقہ انکے نظریات اور تصورات کو ان کے ساتھ ہی دفن کرکے لمبی تان لے گا۔

وہ نہیں جانتے تھے کہ آگے چل کر اسکی چھوڑی ہوئی شیروانی اقتدار کی علامت بنے گی تو اسکی تصویر والا کاغذی نوٹ ہر بند تالے کی چابی کا کام دے گا۔

کون نہیں جانتا کہ پچھلے ساٹھ برسوں میں ریاستی اداروں میں اس چابی کا یوں بے دریغ استعمال ہوا ہے جسکے نتیجے میں وہ لاچار عوام مسلسل پستی میں گرتی رہی ہے جس کے پاس نہ مال تھا نہ جسے سیاست و اقتدار کے اس ڈرامے میں کسی تالے کی ضرورت تھی۔

کہانی یوں رہی کہ فوج اگر اقتدار اعلیٰ سے لمحے بھر کے لئی غافل ہوتی تو بھوکے سیاستدان اس پہ چڑھ دوڑتے تھے۔ اس میں صرف وہی خلقِ خدا غائب تھی جس کے لیئے اس ریاست کی بنیاد ڈالنے کے پاپڑ بیلے گئے۔

یہ لاچار عوام یقیناً اس عوام سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو آجکل بلوچستان اور سندھ سے غائب کر کے بے شناخت و مسخ شدہ چہروں، اذیت زدہ جسموں اور خاک میں لتھڑی لاشوں کی شکل میں پائی جا رہی ہے۔

یہ بے صدا و بے آواز قوم زندگی کی اس جنگ میں ریاست کے اس گندے طلسمی تکون سے دست و پا تو ضرور ہے مگر شخصی طور پہ کوئی اس جنگ میں یوں بھی ہار جاتا ہے کہ بچوں کے دو دنوں کے فاقوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے خود کو آگ لگا دیتا ہے اور پھر کئی دنوں تک سرکاری ہسپتال میں جل کر کوئلہ ہوتے جسم میں زخم خراب ہونے پہ سسک سسک کر جان سے جاتا ہے۔

کوئی اپنے گردوں اور جسم کے دیگر اعضا کو بیچنے کا اشتہار گلے میں ڈالے شہر کے پریس کلب میں مارا مارا پھرتا ہے۔ بچوں کی اکثریت گندگی کے ڈھیروں سے اپنے حصے کا لقمہ ڈھونڈتے کسی درندے کا لقمہ بن جانی ہے۔ بےسائباں خاندانوں کے خاندان ہیں، کھیت کھلیانوں میں مزدوری کرتے جن کی زندگی کی ہتھیلیوں کی تمام لکیریں مٹ چکی ہیں۔

دوسری جانب نا خدا بنے وہ چند با اثر ہیں جن کے کاندھے کے پھول نہ صرف انکی ریاستی امور پہ مکمل دسترس کی خبر دیتے ہیں بلکہ اس اکثریت کی تقدیروں کے خالق ہونے کی نوید بھی سناتے ہیں۔

سینے پہ ستاروں کی سجی قطار ان کے دسترس میں آئے آسمانوں کا پتہ دیتی ہے کہ کس طرح زمین کے سیاہ وسفید کے ملک بنے ہوئے ہیں.

اس تمام منظر نامے میں اقتدار کے لیئے بظاہر دست و گریباں نظر آنے والے طاقت کے تمام ستونوں کا بشمول سیاستدانوں کے باری باری والے فارمولے کے گٹھ جوڑ سے چلتے سلسلے پر حالیہ سپریم کورٹ کی سندھ بینچ کے ایک سو چالیس صفحات پہ مبنی فیصلے سے امید کی اک کرن پھوٹی تھی۔

عدالت عالیہ کے بارہ جون کے اس فیصلے میں سندھ حکومت کے عوامی نمائندگان کی جانب سے سروس اسٹرکچر کے ساتھ چھیڑخانی اور اکھاڑ پچھاڑ اور دیئے گیئے قانونی تحفظ کو کالعدم قرار دیا گیا تھا.

یہ فیصلہ ایک تاریخی آئینہ تھا جس میں سندھ کی ان نام نہاد جمہوری حکومتوں کا طرزِ حکمرانی عیاں تھا کہ اعلیٰ انتظامی شعبوں کی اس سطح پہ بھی ایم پی ایز و ایم این ایز کے بھانجوں بھتیجوں کی ڈائریکٹ بھرتی کی گئی۔

پولیس افسری سے لے کر، ایف آئی اے، انکم ٹیکس، اینٹی کرپشن، صحت، ایکسائیز اور افسر شاہی کے مختلف شعبوں میں آؤٹ آف ٹرن پروموشنز اور نان کیڈر بھرتیوں کا ایک بازار گرم کر رکھا تھا۔

سدا اقتدار کی بھوک لیئے سیاستدان، افسر شاہی بشمول پولیس افسروں کو نہ صرف پالتو کتوں کی طرح پالتے ہیں بلکہ بوقتِ ضرورت ان کو اپنے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لیئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ شکاری کتوں کی سی طبیعت رکھنے والی اس جنس کو سندھ میں وڈیرہ یا سائیں کہتے ہیں اور  اسمبلیوں پہ انہی کی اجارہ داری ہے۔

اس بات کو کیا دہرانا کہ اس سارے کھیل تماشے میں پیر و خلیفہ، بدبودار سیاست سے جنم لیتا کمدار وڈیرا، سائیں اور سائیں کے سائیوں جیسے کتے سب برابر کے شریک ہیں۔ برا مت منایئے میرے پاکستان میں اسی طرح کی عوامی نمائندگی کو 'جمہوریت' کہا جاتا ہے۔


امر سندھو

امرسندھو ایک لکھاری، سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں۔ ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔