دنیا

پہلے روہنگیا خاندان کی میانمار واپسی ہی مشکوک قرار

انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک روہنگیا خاندان کی واپسی کو روہنگیا میں کیے گئے قتل عام سے توجہ ہٹانے کا طریقہ قرار دیا

میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے رخائن میں ظالمانہ فوجی کارروائی کا شکار ہونے والے 7 لاکھ روہنگیا مہاجرین کے ایک خاندان کو ملک میں واپس بلا لیا ہے۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار حکومت کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اسے شہرت حاصل کرنے کے لیے اسٹنٹ قرار دیا جس میں واپس آنے والے افراد کی سیکیورٹی کو نظر انداز کیا گیا۔

گذشتہ سال اگست میں میانمار کی شمالی ریاست رخائن میں فوج کے بے رحم کریک ڈاؤن کے بعد لاکھوں روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں کی جانب ہجرت کی تھی۔

اقوام متحدہ نے اس آپریشن کو مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا، لیکن میانمار نے ان الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس کے فوجی دستوں نے روہنگیا میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش اور میانمارکے درمیان رواں سال جنوری میں روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی سے متعلق معاہدہ طے پایا تھا، تاہم دونوں فریقین کی جانب اس سلسلے میں تیاری نہ کرنے کا الزام ایک دوسرے پر لگایا گیا۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: روہنگیا مہاجرین کیمپوں میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار عروج پر

میانمار حکومت کے حالیہ بیان میں کہا گیا کہ روہنگیا مہاجرین کے ایک خاندان کو نئے تعمیر کیے گئے استقبالیہ مراکز میں ٹھہرانے کے لیے بلالیا گیا ہے۔

میانمار کی انفارمیشن کمیٹی نے اپنے فیس بک پیچ پر جاری بیان میں کہا کہ ’5 افراد پر مشتمل ایک خاندان کی رخائن کے تانگ پیولیتوی علاقے میں قائم مہاجرین کیمپ میں آج صبح واپس ہوئی۔‘

بنگلہ دیش کے مہاجرین کمشنر محمد ابوالکلام نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ میانمار واپس لوٹنے والا روہنگیا خاندان دونوں ممالک کے اس سرحدی علاقے میں موجود کیمپ میں قیام پذیر تھا جو کسی بھی ملک کی زمین نہیں، اس کا مطلب ڈھاکا کا اس خاندان کی واپسی میں کوئی رسمی کردار نہیں۔

اگست سے ہزاروں روہنگیا خاندان سرحد کے قریب قائم کیمپوں میں آباد ہیں، جبکہ دیگر خاندانوں کو بنگلہ دیش کے ضلع کوکس بازار کے وسیع و عریض علاقے میں موجود کیمپوں میں پناہ دی گئی ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزمان خان نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ درحقیقت مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ ابھی شروع نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’صرف ایک خاندان کی واپسی کوئی قابل ذکر عمل نہیں، ہم نہیں جانتے کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ کب شروع ہوگا، جبکہ میانمار کی جانب سے کوئی قابل بھروسہ امید دکھائی نہیں دے رہی کہ وہ ان تمام افراد کو واپس بلائے گا۔‘

یہ بھی پڑھیں: میانمار،روہنگیا مہاجرین کی واپسی پر تیار ہے،بنگلہ دیشی وزیر کا دعویٰ

دوسری جانب میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ امیگریشن حکام نے واپس لوٹنے والے خاندان کو ’نیشنل ویریفکیشن‘ کارڈ فراہم کیے۔

نیشنل ویریفکیشن کارڈز ایک طرح کے شناختی کارڈ ہیں جو کہ شہریت کے مکمل حقوق کی ضمانت نہیں، جبکہ روہنگیا کے اکثر رہنما ان کارڈز کو مسترد کرچکے ہیں۔

میانمار کی جانب سے یہ اقدام اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کی متعدد بار اس تنبیہ کے باوجود اٹھایا گیا کہ میانمار کا یہ اقدام وقت سے پہلے ہوگا، کیونکہ وہاں کی حکومت کو منظم قانونی امتیاز اور ایذا رسانی جیسے مسائل کو حل کرنا ہے جس کا اقلیتی برادری کئی دہائیوں سے سامنا کر رہی ہے۔


یہ خبر 16 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔