خطے کی بدلتی صورتحال پاک چین تعلقات کے لیے آزمائش سے کم نہیں
پاکستان اور چین تقریباً 60 سال سے ایک قریبی اور مسائل سے عاری تعلقات کے حامل ہیں۔ ان کے اسٹریٹجک مفادات مکمل طور پر ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ چین نے پاکستان کو ہندوستان سے عسکری خطرے کو قابو میں رکھنے میں مدد دی تو پاکستان نے چین کو ہندوستان کو قابو میں رکھنے میں مدد دی۔
مگر اب امریکا، چین اور روس کے درمیان سہہ فریقی مقابلے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء میں طاقتوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ بڑی قوتوں کے ساتھ علاقائی تعلقات دوبارہ قطبیت کا شکار ہو رہے ہیں، جس میں ہندوستان امریکا کے ساتھ اور پاکستان چین کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ مگر پھر بھی آج کے معاملات سرد جنگ کے دوران کے معاملات سے زیادہ پیچیدہ ہیں اور ان کا ارتقاء غیر متوقع انداز میں ہوسکتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان نے امریکا اور ہندوستان کے ابھرتے ہوئے اتحاد کے نتائج کا سامنا کیا ہے، اور یہ اسی اتحاد کا مظہر ہے کہ امریکا مسلسل پاکستان پر کشمیری حریت پسند گروہوں کے خلاف ایکشن لینے اور اپنے ایٹمی اور میزائل پروگراموں کو محدود کرنے کے لیے دباو ڈال رہا ہے، اور امریکا کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں بھلے ہی ہندوستان خود کتنے ہی ہتھیار جمع کرتا رہے اور پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کی مالی معاونت جاری رکھے۔
مزید پڑھیے: شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری پاک چین دوستی کی اصل وجوہات
جہاں پاکستان کی سفارتکاری امریکا کے ساتھ بحران کو سنبھالنے میں مصروف ہے، وہیں دوسرے ابھرتے ہوئے رجحانات پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات اور اس کے چین کے ساتھ مستحکم تعلقات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
امریکا اور ہندوستان کا اتحاد پاکستان کو چین پر پہلے سے بھی زیادہ انحصار کی جانب اور روس کے ساتھ نیا تعاون قائم کرنے کی جانب دھکیل رہا ہے، حالانکہ ماسکو ہندوستان کو ہتھیار فراہم کرنے کے لیے اپنے تاریخی تعلقات کو برقرار رکھے گا اور چین اور روس دونوں ہی ہندوستان کو امریکا کے ساتھ ایک مکمل فوجی اتحاد سے روکنا چاہتے ہیں۔
چین بتدریج یہ بات سمجھتا جا رہا ہے کہ امریکا اور چین کے باہمی انحصار اور کشمکش سے بچنے کی زبردست کوششوں کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نظریاتی طور پر چین کو اقتصادی، سیاسی اور عسکری طور پر محدود کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
چین کی یہ کوشش ہے کہ امریکا اس کے خلاف جو اتحاد کھڑا کرنا چاہتا ہے، وہ اسے کمزور کردے۔ چنانچہ وہ اپنے کئی پڑوسیوں کمبوڈیا، لاؤس، میانمار اور یہاں تک کہ فلپائن جیسے ملک کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کر رہا ہے جس کے ساتھ اس کے بحری تنازعات ہیں۔ جاپان کے خلاف بیانیہ بھی نرم پڑچکا ہے۔
ڈوکلام تنازعے کے حل سے لے کر اب تک چین نے نئی دہلی کی جانب کئی اہم قدم بڑھائے ہیں جن میں برکس (BRICS) سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں ہندوستان مخالف دہشتگرد گروہوں کا نام لینا اور سب سے اہم، پاکستان کے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں داخلے پر اعتراضات واپس لینا شامل ہیں۔ اس دوران کچھ چینی تبصروں میں چین اور ہندوستان کے باہمی مفادات کے بارے میں اشارہ کیا گیا جن میں 100 ارب ڈالر کے تجارتی تعلقات، ہندوستان میں اچھی خاصی چینی سرمایہ کاری اور امریکا کے ساتھ تجارتی کشمکش شامل ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کے لیے آزمائش کا دور، لیکن ...
واشنگٹن کی جانب زبردست جھکاؤ ہونے کے بعد ہندوستان ٹرمپ کے امریکا کے ساتھ یکجہتی اتحاد کے مؤثر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے دلائی لامہ کی تبتی تقریبات میں ہندوستان کی باضابطہ غیر موجودگی کا نوٹس لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان کے نئے سیکریٹری خارجہ جو کہ چین میں سفیر بھی رہ چکے ہیں، اس تبدیلی کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں اور وہ ہندوستان کی چین پالیسی میں تبدیلیوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔
مبیّنہ طور پر ہندوستان نے امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور ہندوستان کے چین مخالف فوجی اتحاد کے تصور کے لیے بہت زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ شی جن پنگ اور نریندرا مودی کے درمیان چین میں جلد متوقع ملاقات کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔
ان پیش رفتوں کے پاکستان پر اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کئی اہم جہتوں میں دیکھیں تو ہندوستان اور چین کے درمیان قریبی تعلقات پاکستان کے لیے مثبت بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ پاکستان کو ہندوستان سے لاحق خطرات میں کمی لاسکتے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو سبوتاژ کرنے کی ہندوستانی کوششوں کو ختم کرسکتے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہندوستان ہر اعتبار سے اپنا مکمل فائدہ چاہے گا: یعنی امریکی ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور پاکستان کے خلاف دباؤ، اور ساتھ ہی ساتھ چینی تجارت اور سرمایہ کاری اور خطے میں بالادستی کی ہندوستانی خواہشات پر بیجنگ کے اعتراضات کا خاتمہ۔
اس کے علاوہ امکان ہے کہ ہندوستان پاکستان پر کشمیری حریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی اور کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت کے مکمل خاتمے کے چینی دباؤ کا طلبگار ہوگا۔ ہندوستان یہ بھی چاہے گا کہ پاکستان کو جدید ترین چینی اسلحہ سسٹم اور ٹینکالوجی کی منتقلی محدود کی جائے۔
پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے ہر دور میں آزمائش پر پورا اترنے والے تعلقات کو مضبوط اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے 5 نکاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے۔
مزید پڑھیے: امریکا اور چین میں سے 'حقیقی برتری' آخر کسے حاصل ہے؟
سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں جموں و کشمیر تنازعے کے منصفانہ اور پُرامن حل اور کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کو جبر کے ذریعے دبانے کی ہندوستانی کوششوں کے خاتمے کے لیے سرگرمی سے کام کرنا۔ اس کے بغیر جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن اور استحکام نہیں ہوگا۔
پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکیوں کی عوامی مخالفت کرنا اور خبردار کرنا کہ ایسا ہونے کی صورت میں مناسب چینی ردِعمل آئے گا۔ چین کی ایسی حمایت پاکستان اور چین کے اسٹریٹجک تعلقات کی بنیاد ہے اور پاکستان چین کی خودمختاری بشمول بحیرہ جنوبی چین پر چین کے بحری دعوؤں کی مضبوط حمایت کی صورت میں اپنی حمایت ظاہر کرچکا ہے۔
اس بات پر زور دینا کہ سی پیک پاکستان اور چین کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے اسٹریٹجک مفادات سے متعلق ہے۔ افغان سرزمین اور دیگر جگہوں سے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہندوستانی حمایت یافتہ دہشتگردی چین پر بھی اتنا ہی بڑا حملہ ہے جتنا کہ پاکستانی مفادات پر۔ اس کے علاوہ ہندوستان کو سی پیک میں شمولیت کے لیے فوائد کی پیشکش چین اور پاکستان کی جانب سے مشترکہ طور پر کی جانی چاہیے اور اس سے جموں و کشمیر تنازعے پر پاکستان کے مؤقف پر کسی بھی طرح سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
چین پاکستان کو رعایتی شرائط پر وہ اسحلہ سسٹم اور دفاعی صلاحیتیں فراہم کرے جو ہندوستان کو امریکا اور دیگر ممالک سے حاصل کیے گئے جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کرسکے۔ اگر پاکستان ہندوستان کی بالادستی کے منصوبوں کے سامنے جھک گیا تو نئی دہلی کی فوجی صلاحیتیں پاکستان کے بجائے چین کے خلاف تعینات ہونا شروع ہوجائیں گی۔
پاکستان میں چین کی بڑی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے جس میں مخصوص صنعتوں کی پاکستان منتقلی بھی ہے کیوں کہ ان کا چین میں رہنا اب مسابقتی لحاظ سے فائدہ مند نہیں۔
یہ عین ممکن ہے کہ چین کی جانب ہندوستان کے بظاہر بڑھتے قدم صرف حربے ہوں تاکہ وہ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کی بہتری کے لیے استعمال کرسکے۔ مگر پاکستان کو چاہیے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ ہندوستانی تعلقات کی بہتری کے ان اقدامات کو ہندوستان سے واشنگٹن کی محبت کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرے۔
ابھرتی ہوئی کثیر القطبی دنیا چھوٹی اور بڑی ریاستوں کو بڑی طاقتوں کے درمیان ایک سے دوسری جگہ جانے کے لیے کافی مواقع فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی سفارتکاری کو تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی پیچیدہ دنیا کے چیلنجز اور مواقع کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے سفارتکار بالکل پاکستانی انداز کے سیاسی ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔
لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔