’پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کے عوض ڈالرز وصول کیے گئے‘
اسلام آباد: لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کے عوض ڈالرز وصول کیے گئے۔
رکن اسمبلی زہرہ ودود فاطمی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں جاوید اقبال کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ سابق وزیر داخلہ اور رکن اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جانب سے 4 ہزار پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا جبکہ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا اعتراف کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پرویز مشرف اور آفتاب شیر پاؤ کے اقدامات کی تحقیقات کروانی چاہیے تھی اور پوچھنا چاہیے تھا کہ آخر کس قانون کے تحت پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا لیکن ان کے خلاف پارلیمان میں آواز نہیں اٹھائی گئی۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ایک پاکستانی کو کسی غیر ملک کے حوالے کیسے کیا جاسکتا ہے، ملک میں پارلیمان، آئین، عدالتیں ہونے کے باوجود کیسے کسی پاکستانی کو دوسرے ملک کو دیا گیا؟
مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے جرائم کی تفصیلات پیش کی جائیں: سپریم کورٹ
انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں اور خفیہ طریقے سے انہیں غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا اور اس کے عوض ڈالرز وصول کیے گئے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کو 4 ہزار 929 کیسز موصول ہوئے، جن میں سے مارچ 2011 سے فروری 2018 تک 3 ہزار 219 کیسز نمٹائے گئے جبکہ ایک ہزار 710 کی تحقیقات جاری ہیں۔
کمیشن کے اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ 2 سال میں کمیشن کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتہ افراد کی جانب سے 368 کیسز موصول ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ سے ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے لاپتہ افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے سنجیدگی سے نوٹس لیا، اگست 2016 میں کراچی سے 68 لاپتہ افراد کا پتہ لگا لیا گیا، جو یا تو جیل میں تھے یا واپس گھر لوٹ چکے تھے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کراچی سے 368 لاپتہ افراد کے کیسز میں سے 309 نمٹا دیئے گئے جبکہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے مئی 2017 کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف لاپتہ افراد کے 723 کیسز درج ہوئے۔
لاپتہ افراد کمیشن کے اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ ان کیسز میں سے اب تک 505 کیسز نمٹا دیئے گئے ہیں جبکہ 218 زیر التوا ہے، ساتھ ہی ایم کیو ایم کارکنان کے 29 کیسز بھی زیر التوا ہیں، جو 1992 سے 1995 تک کے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ 14 افغان شہریوں کے بھی مقدمات ہیں جو 1982 سے 1986 کے دوران پاکستان سے لاپتہ ہوئے تھے۔
منظور پشتین کا معاملہ
قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں رکن اسمبلی نسیمہ حفیظ کی جانب سے معاملہ اٹھایا گیا کہ ملک میں ایک شخص منظور پشتین لاپتہ افراد کی بات کر رہا ہے لیکن میڈیا میں اسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منظور پشتین کے جلسے میں وہ خواتین موجود تھیں، جن کے ہاتھوں میں ان کے خاندان کے لاپتہ افراد کی تصاویر تھی، اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ وہ اس معاملے پر منظور پشتین سے رابطہ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: اپنے مطالبات عدالت میں حل کرنا چاہتے ہیں، منظور پشتین
جاوید اقبال نے کہا کہ منظور پشتین اچانک سے منظر عام پر آئے ہیں، میں ان سے لاپتہ افراد کی فہرست لے کر معاملے کو دیکھوں گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایک عرصے سے چل رہا لیکن منظور پشتین کو سامنے آئے 2 سے 3 ہفتے ہوئے ہیں اور غیر ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر انہیں کافی کوریج دی جارہی ہے جبکہ پاکستانی میڈیا تو لاپتہ افراد کو بھی کوریج نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ اکثر بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد خوف کی وجہ سے کمیشن کے سامنے واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں، لاپتہ افراد کمیشن نے ذمہ داری کے تعین کے بعد 100 سے زائد کیسز وزارت دفاع کو بھیجے ہیں۔
کمشین کے چیئرمین نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد میں 70 فیصد سے زائد افراد عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے لیکن اگر کوئی شخص دہشت گرد ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے گھر والے بھی دہشت گرد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے اداروں نے تعاون کیا اور ایسے افراد کے اہل خانہ کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں غیر ملکی این جی اوز کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جس پر جاوید اقبال نے کہا کہ وہ ایسے بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں پر پابندی کے حق میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ این جی اوز ملک کی بجائے غیر ملکیوں کے مفاد میں کام کر رہی ہیں اور این جی اوز کو فنڈنگ بھی غیر ملکیوں سے مل رہی ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ میرے اختیار میں ہوتا تو این جی اوز پر پابندی عائد کر چکا ہوتا لیکن این جی اوز پر پابندی کے معاملے پر سیاسی مصلحت آڑے آجاتی ہے۔
نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں کارروائی کا معاملہ
اجلاس کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کی کارروائی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے انتقامی کارروائیوں سے متعلق تمام تاثرات کو مسترد کیا۔
انہوں نے کہا کہ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جا رہی اور نہ ہی کسی قسم کی ڈکٹیشن لینے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: 'نواز شریف کی اداروں پر تنقید نامناسب'
جاوید اقبال کا مزید کہنا تھا کہ مجھے ڈکٹیٹشن لینے کی ضرورت بھی نہیں، ڈکٹیشن کو محسوس کیا تو اپنا بریف کیس اٹھاؤں گا اور چلا جاؤں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتقامی کارروائیوں سے متعلق الزام لگے تو وضاحت ضروری ہے، ہر کسی کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔
اس دوران حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی قومی اسمبلی ثریہ اصغر نے اعتراض کیا کہ ہم نے آپ سے نیب کے متعلق کوئی وضاحت نہیں مانگی، جو ہو رہا ہے ہمیں پتہ ہے، آپ وضاحت نہ کریں۔
جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ میں ذاتی طور پر خود وضاحت دے رہا ہوں کیونکہ الزامات لگیں تو وضاحت ضروری ہے۔