نقطہ نظر

تاحیات نااہلی: کیا اب بھی راستہ موجود، تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

فیصلہ ہرگز غیر متوقع نہیں اور اچھی بات یہ کہ جہانگیر ترین کیلئے بھی وہی سزا رکھی گئی جو نواز شریف کیلئے متعین کی گئی ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تاریخی فیصلے میں آئین کی شق 62 (1) (ف) کی تشریح کرتے ہوئے نااہلی کی مدت کو تاحیات قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کا براہِ راست تعلق سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے جنرل سیکریٹری جہانگیر خان ترین کی نااہلی کے کیسز سے ہے۔ اس فیصلے کے مطابق اب نااہل قرار دیے گئے افراد تب تک نااہل رہیں گے جب تک ان کی نااہلی کے خلاف دوسرا فیصلہ نہیں آجاتا۔

یاد رہے کہ آئین کی شق 62 (1) (ف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی، جب گزشتہ سال نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ ان کی نااہلی کی مدت کتنی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی مدت کا تعین کرنے کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

یہ فیصلہ کتنا اہم ہے؟ آنے والے انتخابات اور پاکستان کی سیاست پر یہ فیصلہ کس حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ نواز شریف کی اہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کتنا نقصان ہوگا؟

ان تمام تر سوالات کے جوابات کے لیے ہم نے سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین سے رائے لی ہے، آئیے جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں وہ کیا کہتے ہیں۔

پڑھیے: تسلیم کرتے ہیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں ابہام ہے، چیف جسٹس

نصرت جاوید


سیاسی تجزیہ کار

ایک بار پھر ان لوگوں کی وفاداریوں میں تبدیلی کا وقت آ رہا ہے جو نسلوں سے محض ذاتی مفادات کی خاطر سیاست کر رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس میں مزید تیزی آئے گی، جبکہ مسلم لیگ (ن) جو کہ اب مسلم لیگ (ش) بن چکی ہے، وہ بتدریج کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ اس صورتحال میں یہ فیصلہ سیاسی میدان میں مزید ٹینشن اور انتشار کو جنم دے گا۔

اور جہاں تک تعلق ہے کہ آیا پارلیمنٹ آئین کی اس شق کو ختم کر سکتی ہے تو بالکل، پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے مگر اس کے لیے دو تہائی اکثریت ہونا لازم ہے، اور مستقبل میں ایسی اکثریت کسی کو بھی ملتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔

نواز شریف کی مستقل نااہلی کی وجہ سے (ن) لیگ کو تو نقصان ہوگا مگر پاکستان تحریک انصاف اس فیصلے کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوگی کیونکہ وہ سیاسی جماعت کم اور فین کلب زیادہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کی اہمیت بطور سیاسی لیڈر نہیں بلکہ (اے ٹی ایم) کے تھی، اگر اس فیصلے کے بعد جہانگیر ترین پارٹی سے ہٹ بھی گئے تو کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا۔

سید کلیم خورشید


صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن

اس فیصلے میں آئین کی شق 62 (1) (ف) کی تشریح کی گئی ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو آئین کی شق 189 کے تحت اس کا اختیار حاصل ہے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ یہ شق اہلیت متعین کرتی ہے، نااہلی نہیں۔ اس کا اطلاق صرف انتخابات میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے ہوئے ہوتا ہے اور یہ صرف اس ایک انتخاب لیے ہوتا ہے۔ مگر سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے اور اس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے پاس اب نااہلی سے بچنے کا راستہ یہ ہے کہ اگر انہیں احتساب عدالت سے 2 سال یا اس سے زائد عرصے کی سزا ہوجاتی ہے، تو آئین کی شق 63 (1) (h) کے تحت ان کی نااہلی کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 5 سال کا ہوسکتا ہے۔ اس نکتے کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، جبکہ نواز شریف نظرِ ثانی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے خود نااہلی کی میعاد مقرر کر دے تو بھی نواز شریف کو موقع مل سکتا ہے۔

جہاں تک آئینی بحران کی باتیں کی جا رہی ہیں، تو ایسا کوئی بحران جنم لیتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیوں کہ نواز شریف اس وقت وزیرِ اعظم نہیں ہیں۔

پڑھیے: پاناما کیس کا فیصلہ جاری کرنے والے ججز کون ہیں؟

مہر بخاری عباسی


سیاسی تجزیہ کار

سپریم کورٹ نے ایک ایسے کیس میں نہایت واضح طور پر سخت فیصلہ دیا ہے جس میں زیادہ تر افراد کو لگ رہا تھا کہ آئین کی شق 62 (1) (ف) کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ اس فیصلے کو پارلیمنٹ پر چھوڑا جا سکتا تھا، مگر ایک رہنما کو زندگی بھر کے لیے انتخابی دوڑ سے باہر کر دینا ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر سپریم کورٹ پر آنے والے دنوں میں سخت تنقید ہوگی۔

جب تک کہ نواز شریف کو آئین کی شق 62 (1) (ف) کے تحت نااہل قرار دینے والا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا، تب تک وہ زندگی بھر کے لیے نااہل رہیں گے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ پارلیمنٹ بھی نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے لیے قانون سازی نہیں کر سکتی۔

مگر بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو اس فیصلے کے پاکستان اور اس کے سیاستدانوں پر گہرے منفی اثرات ہوں گے۔ اب کسی بھی سیاستدان اور اس کی ‘اہلیت’ کو سپریم کورٹ میں بغیر ٹرائل کے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ اس سے زندگی بھر کے لیے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے۔ صدیوں سے جاری قانونی روایات اور اس فیصلے میں تصادم نظر آتا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نواز شریف کو اس شق کے تحت نااہل کیا گیا ہے جو کہ ان کے سیاسی گاڈ فادر جنرل ضیاء الحق نے آئین میں متعارف کروائی تھی۔ غیر جمہوری مداخلت نئے نویلے نظریات سے زیادہ دور رس نتائج رکھتی ہیں۔

مزید پڑھیے: نواز شریف کی تاحیات نا اہلی کے فیصلے پر سیاست دانوں کا رد عمل

مجاہد بریلوی


سیاسی تجزیہ کار

یہ فیصلہ بالکل بھی غیر متوقع نہیں ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ فیصلہ متوازن ہے اور جہانگیر ترین کے لیے بھی وہی سزا رکھی گئی ہے جو کہ نواز شریف کے لیے متعین کی گئی ہے۔ چوں کہ نااہلی کی مدت پہلے 3 سال یا 5 سال کے لیے ہوا کرتی تھی، اور یہ بھی توقع کی جا رہی تھی کہ نواز شریف صرف 2018ء کا الیکشن نہیں لڑ سکیں گے، مگر اب تاحیات نااہلی سے ان کی پارٹی کو کتنا نقصان پہنچے گا، یہ دیکھنا ہوگا۔

اس حوالے سے دور رس اثرات ابھی سے ہی شروع ہو چکے ہیں اور جنوبی پنجاب، شیخوپورہ اور دیگر علاقوں سے لوگوں نے مسلم لیگ (ن) چھوڑنی شروع کر دی ہے۔ مگر پھر بھی سیاست میں نااہلی یا اہلیت اتنی اہم نہیں کیوں کہ لوگ پس منظر میں رہ کر بھی سیاست جاری رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر سیاستدان بادشاہ گر ہوتے ہیں، اور صرف ایک فیصلے سے ان کا سیاسی کردار مکمل ختم نہیں ہو سکتا۔

اس سے یہ بھی سوال اٹھے گا کہ کیا تاحیات نااہلی کے بعد بھی وہ ویسے ہی اپنی جماعت کے لیے فیصلے کرتے رہیں گے؟ میرا نہیں خیال کہ آئین اور قانون انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں اپنے حامیوں، سیاسی کارکنوں، اور اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزراء سے ملاقاتیں کرنے سے روک سکتا ہے۔

جانیے: عدالت عظمیٰ نے کئی تاریخی فیصلے جمعے کے دن سنائے

مبشر زیدی


سیاسی تجزیہ کار

بظاہر سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہوچکی ہے اور شاید وہ اب دوبارہ پارلیمنٹ میں واپس نہیں آسکیں مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اپریل 1999ء میں سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو بھی کرپشن کے مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی۔ اس فیصلے میں بھی درج تھا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری دوبارہ کبھی بھی سیاست میں نہیں آسکتے مگر وہ فیصلہ بعد میں تبدیل ہوا اور دونوں شخصیات دوبارہ سیاست میں واپس آئیں۔

فیصلہ چوں کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے دیا ہے، اس لیے مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ یہ تبدیل ہوسکے۔ مگر ان کی جماعت اب بھی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، حکومت میں ہے اور آنے والے انتخابات میں بھی یوں ہی محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب میں وہی میدان ماریں گے۔ اور جس طرح مسلم لیگ (ن) نے اس فیصلے کو متنازعہ قرار دیا ہے تو بظاہر اگرچہ یہ ہی لگ رہا ہے کہ نواز شریف اب شاید دوبارہ سیاست میں واپس نہ آسکیں لیکن ان تمام عوامل کی وجہ سے ہم نواز شریف کی سیاست سے مکمل طور پر دوری سے متعلق حتمی طور پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

جب بھی حالات بدلیں گے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں حالات اکثر بدلتے ہیں تو کوئی بھی ایسا فیصلہ آسکتا ہے جو ان کے لیے سازگار ہو۔ لہٰذا تاحیات نااہلی کے حوالے سے حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آیا یہ عملی طور پر ممکن ہے یا نہیں۔

ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔