دنیا

’شام میں کیمیائی حملے کے جواب میں تمام آپشن زیر غور‘

صدرٹرمپ کے پاس بہت سے راستے موجود ہیں، جس میں سے کچھ پر غور جاری ہے، فوجی کارروائی کا حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، وائٹ ہاؤس

شام میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے پر مغربی رہنماؤں کی جانب سے جوابی کارروائی کرنے پر زور دیا جارہا ہے جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ اس ضمن میں تمام آپشنز پر غور کر رہا ہے۔

صحافیوں سے گفتگو میں وہائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈر نے شام اور روس کو کیمیائی حملے کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا کہ فوجی کارروائی سے متعلق تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

اس سلسلے میں امریکی قومی سلامتی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جبکہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی جانب سے بھی کابینہ کا اجلاس بلائے جانے کی توقع ہے۔

شام میں امدادی کارکنوں کے مطابق کیمیائی حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں،

واضح رہے کہ شام میں دوما کا یہ قصبہ باغیوں کے زیر تسلط تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دمشق کے قریب شامی فورسز کا کیمیائی حملہ، 40 افراد جاں بحق

دوسری جانب شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کی جانب سے کیمیائی حملے میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی گئی ہے۔

روسی وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ دوما میں شامی افواج نے کنٹرول سنبھال لیا یے، لاکھوں افراد محفوظ راستے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

تاہم کسی اور ذریعے سے اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔

وہائٹ ہاؤس میں بریفنگ میں سارا سینڈرز کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے پاس بہت سے راستے موجود ہیں جس میں سے کچھ پر غور جاری ہے، تاہم ابھی تک کوئی حتمی لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھیں: شام میں ’کیمیائی حملے‘ کی تحقیقات کیلئے قرار داد، روس نے ویٹو کردی

واضح رہے کہ یہ بات صدر ٹرمپ کی جانب سے اس دھمکی آمیز ٹویٹ کے تناظر میں کی گئی ہے، جس میں انہوں نے روس کو شام میں میزائل حملے کے لیے تیار رہنا کا کہا تھا۔

دوما کے حالات:

عالمی میڈیا میں اس وقت شام کے علاقے دوما کا نام سننے میں آیا، جب حکومت مخالف امدادی رضاکاروں کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ دوما میں شامی فوج نے کیمیائی حملہ کیا، جس میں عام شہری نشانہ بنے۔

شامی حکومت نے ایسے کسی بھی قسم کے حملے کی تردید کی ، اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپن کی جانب سے جلد ایک ٹیم روانہ کیے جانے کا امکان ہے۔

شام میں کام کرنے والے امدادی رضاکاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مشتبہ کیمیائی حملے میں سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ مبینہ حملہ دوما کے اس علاقے میں کیا گیا ہے جو اس سے قبل سرکاری فوج کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کے زیر تسلط تھا۔

دوما میں ہونے والے مشتبہ کیمیائی حملے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا، جو روس اور امریکا کی باہمی کشمکش کے باعث بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا۔

تاہم امریکا نے شامی اور روسی افواج کو اس کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔