لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔
اگر کوئی شخص تاریخ کے اوراق پلٹ کر اس بات پر ٹی وی پروگرام کرے کہ 1976ء میں مستقبل کی برطانوی وزیرِاعظم تھیریسا مے کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے بال ڈانس میں ان کے مستقبل کے شوہر سے متعارف کروانے والی شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ بینظیر بھٹو کی تھی، تو ہم میں سے بہت لوگ خوشی خوشی اپنا کافی سارا قیمتی وقت اس گفتگو اور پھر اس گفتگو پر ہونے والی گفتگو میں گزار دیں گے۔
دوسری جانب اگر پوچھا جائے کہ آیا برطانوی وزیرِاعظم تھیریسا مے دنیا کے استحکام کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ بڑا خطرہ ہیں تو اس بات کو شاید ایک افواہ قرار دے کر مسترد کردیا جائے۔ مگر یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ہمیں اکثر گاڑی کے عقبی شیشوں میں خبردار کیا جاتا ہے کہ شیشے میں موجود چیزیں اس سے زیادہ قریب ہوسکتی ہیں جتنی کہ وہ شیشے میں نظر آتی ہیں۔
اس وارننگ کا اطلاق بین الاقوامی سیاست پر بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہم جو دیکھتے ہیں یا جو ہمیں لگتا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ حقیقت سے کافی مختلف ہوسکتا ہے۔ جو چیز دور دکھائی دیتی ہے، وہ گھر میں موجود تنازعات کا سبب ہوسکتی ہے۔ ماہر سماجی سائنسدان اسے ’ڈائلیکٹِکس‘ کہتے ہیں جس کے تحت دنیا کی ہر چیز کو ہر دوسری چیز سے جوڑا جاسکتا ہے۔
سیلزبری میں ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکریپل (Sergei Skripal) کا زہر کے ذریعے قتل دیکھیں یا باغیوں کے زیرِ اثر شامی علاقے دومہ میں تازہ ترین کیمیکل حملہ، دونوں کے درمیان تعلق دیکھنے کے معقول طریقے موجود ہیں۔ مگر جس طرح خبروں اور معلومات کے ذرائع نامعقول ہوچکے ہیں، ایک عام شہری کو اس بحث میں گھسیٹنا مشکل ہوگا جو ان کے نزدیک شیشے پر نظر آنے والا ایک دور دراز دھبہ ہے۔
تو چلیں ہم فوراً اپنے سامنے موجود حقائق پر بات کرتے ہیں اور پھر ہم انہیں بھی چیک کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور جھوٹی خبر نہیں ہے کہ نومبر 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے۔ نہیں؟ پھر جلد ہی ان کے انتخاب کو روسی ایجنٹوں کی کارروائی قرار دے دیا گیا۔ صحیح؟
واقعتاً ٹرمپ ریاست کی خفیہ طاقتوں کو زچ کرتے رہے۔ وہ ولادیمیر پیوٹن سے دوستی کرنا چاہتے تھے جبکہ انہوں نے نیٹو کے مقصد پر بھی سوال اٹھائے۔ وہ ایک قدم اور آگے چلے گئے اور انہوں نے ان کو دی جانے والی انٹیلیجینس رپورٹس پر یا تو سوال اٹھانے شروع کردیے یا پھر انہیں عوام کے سامنے لانا شروع کردیا۔
پھر بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب اثر و رسوخ رکھنے والی تھیریسا مے ریاست کی خفیہ طاقتوں کی مدد کو آئیں۔ جب ٹرمپ اپنے سیاسی دور سے پہلے خواتین سے بدتہذیبی میں مصروف تھے، تھیریسا مے اس وقت بھی اپنے ملک کی وزیرِ داخلہ تھیں۔ وہ 2010ء میں اس عہدے پر آئیں اور جولائی 2016ء میں جب انہیں ملک کا وزیرِاعظم اور پارٹی کا سربراہ بنایا گیا، تب تک اس عہدے پر رہیں۔
ان کے دورِ وزارت میں لیبیا تباہ ہوا اور شام پر زبردست حملے کیے گئے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ جب کریمیا کا تنازع کھڑا ہوا تب بھی وہ وزارت میں تھیں، اور ان کی اس پر گہری نظر تھی۔ بھلے ہی وہ نیٹو کی جانب سے روس کے خلاف پھیکے ردِعمل پر نجی طور پر حیران بھی ہوئی ہوں گی۔
جب وہ گزشتہ سال 26 جنوری کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والی پہلی غیر ملکی لیڈر بنیں تو اس وقت انہیں ایک اور سر درد کا بھی سامنا تھا، اور اسی لیے وہ وائٹ ہاؤس کے دورے کے بعد واپسی میں اتنے ہی اہم ملک تُرکی میں رکیں۔ ان کی منزل یہ دونوں ممالک نیٹو کے اتحادی تھے اور دونوں ہی ولادیمیر پیوٹن کے خطرناک حد تک قریب جا رہے تھے۔ جلد ہی انہوں نے دیکھ لیا کہ برطانیہ کی روس مخالف صدیوں پرانی پالیسی ان کے قدموں تلے سرک رہی تھی۔
ڈرائیور کی جانب موجود شیشہ شاید ہمیں بتا رہا ہو کہ ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ سے خبردار رہنا چاہیے جن کے بارے میں کئی امریکیوں کے ساتھ ساتھ سبھی مانتے ہیں کہ وہ ایک انجان علاقے میں پوری رفتار سے داخل ہوجانا چاہتے ہیں۔ مگر دوسری جانب موجود شیشے پر صرف ایک دھبہ نظر آ رہا ہے اور وہ بھی ایسی لین میں جہاں اسے نہیں ہونا چاہیے۔ جہاں تک ننگی آنکھ دیکھ سکتی ہے، تو وہاں تک یہ خطرناک دھبہ تھیریسا مے جیسا لگ رہا ہے۔ کھل کر کہیں تو ٹرمپ صرف توجہ ہٹانے کا ایک پُتلا ہیں۔
ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکریپل کا روس نے 2010ء میں امریکا سے تبادلہ کرلیا تھا اور انہیں حفاظت کی غرض سے برطانیہ بھیج دیا تھا۔ ان کی بیماری کے بارے میں روسیوں نے سوال پوچھے ہیں بشمول اس کے کہ صدارتی انتخابات کے موقع پر ہی انہیں زہر کیوں دیا گیا؟ یا روس کی جانب سے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی سے بالکل پہلے کیوں؟ یہ شک بھی جائز ہے کہ اسکریپل اور ان کی بیٹی کسی ایسے شخص کے حملے کا نشانہ بنے جس کا پردہ اسکریپل کی وجہ سے فاش ہوگیا تھا۔
مگر دوسری جانب ہم یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ آیا کسی ملک کے لیے ایسا زہر تیار کرنا ناممکن ہے جو اصل میں کسی اور ملک نے ایجاد کیا تھا؟ یہ سوال اس وقت اہم ہے جب دوسرا فریق دعویٰ کرتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ زہر کون سا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو ان کے پاس وہ مواد موجود ہے اور اس سے وہ اس کا تریاق بھی ایجاد کرسکتے ہیں، یا ایسا کیوں نہیں کہ اسے محفوظ رکھیں تاکہ حملہ کرکے کسی اور کا نام لگا سکیں؟ ایسا نہیں ہوا تھا مگر اس کی وجہ سے چند سوالات ذہن میں پیدا ہوئے۔
انگلینڈ میں ایک بیچاری سائنسدان کی خسرے سے موت ہوگئی جب 1978ء میں لیبارٹری نے حادثاتی طور پر وائرس چھوڑ دیا تھا۔ جینیٹ پارکر کی موت نے طبی شعبے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس وقت کی اطلاعات ہیں کہ یہ مان لیا گیا تھا کہ وائرس ایک خسرہ لیبارٹری سے ہوا کی راہداری کے ذریعے ہوتا ہوا جینیٹ کے دفتر میں آ پہنچا۔
یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ سالزبری اور دومہ میں ہونے والے دونوں حملوں کا الزام روس پر ڈالا جا سکتا ہے۔ زیادہ گہری بحث جان بولٹن کی ٹرمپ کے نئے قومی سلامتی مشیر کے طور پر تعیناتی پر ہوگی۔ انہوں نے ایران کے ساتھ جنگ کی حمایت کی ہے اور مبینہ شامی کیمیائی حملہ ان کے اس مقصد کو مضبوط کرسکتا ہے۔
مگر ٹرمپ نے روس کے لیے اپنا لہجہ بدل کیوں لیا ہے؟ کیا ریاست کی خفیہ طاقتوں کو آخر ان پر کنٹرول حاصل ہوگیا ہے؟ اگر ہاں، تو تھیریسا مے کو بیانیے پر زیادہ کنٹرول ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اگر یہی بات ہے تو یہ ماسکو میں ایک سابق برطانوی ایجنٹ تھا جس کی رپورٹ نے امریکا کے صدر کے حواس بحال کیے ہیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔