چہرے پر بھنویں کیوں؟ سائنسدان آخرکار جاننے میں کامیاب
آپ کے خیال میں چہرے پر موجود بھنویں کس کام آتی ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سائنسدان طویل عرصے جاننے کی کوشش کررہے تھے اور آخرکار انہوں نے اسے 'جان' ہی لیا۔
برطانیہ کی یارک یونیورسٹی کی تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ موجودہ عہد کے انسان ہوسکتا ہے کہ قدیم دور کے لوگوں کی طرح انوکھے انداز سے بھنوؤں کو اٹھا نہیں سکتے مگر اس کی جگہ ہمیں ہموار چہرہ اور جذبات ظاہر کرنے والی پیشانی ضرور مل گئی ہے۔
مزید پڑھیں : انسانی جسم کا یہ راز جانتے ہیں؟
برطانوی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین کا ماننا ہے کہ ابتدائی انسان کے چہرے پر بھنوﺅں کا مقام بہت چوڑا تھا جو کہ جسمانی بالادستی کی علامت سمجھا جاسکتا ہے، جیسے جیسے انسانی چہرہ ارتقائی مراحل سے گزر کر چھوٹا اور سپاٹ ہوا، تو یہ ایسا کینوس بن گیا، جس میں بھنویں مختلف النوع جذبات کا اظہار کرسکتی ہیں۔
محقق پال او ہیگنس نے کہا 'ہم نے بالادستی یا جارحیت کی جگہ مختلف النوع جذبات کا اظہار کو اپنالیا، جیسے جیسے چہرے چھوٹے ہوئے، پیشانی بڑی ہوتی گئی، چہرے کے مسل بھنوؤں کو اوپر نیچے حرکت دینے لگے اور ہم اپنے تمام لطیف جذبات کا اظہار ان کے ذریعے کرنے لگے'۔
یہ بھی پڑھیں : انسانی جسم میں ڈی این اے کی لمبائی کتنی؟
تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کا نتیجہ فی الحال قیاسی ہے تاہم اگر یہ درست ثابت ہوا تو چھوٹے، سپاٹ چہرے کا ارتقاءبھنوﺅں کی سماجی طاقت کو ثابت کرے گا، جس نے انسانوں کو زیادہ پیچیدہ اور لطیف طریقے سے رابطے کا موقع دیا۔
تحقیق کے مطابق ہم اس مقام سے آگے بڑھ چکے ہیں جب ہم ایک دوسرے سے مسابقت چاہتے تھے اور اپنے فائدے کے لیے زیادہ جارحیت پسند نظر آنا چاہتے تھے، اب ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہم لوگوں کے ساتھ تعلق میں بہتر نظر آنا چاہتے ہیں اور بھنوﺅں کی ایک حرکت سے لوگوں کے جذبات کو بھانپتے ہیں اور ہمدردی کرتے ہیں یا دیگر جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔