دنیا

ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں ’کیمیائی حملوں‘ پر بڑے فیصلے کا عندیہ دے دیا

امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں کابینہ کا اجلاس طلب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران فیصلے سامنے آئیں گے۔

بیروت: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں کیمیائی حملوں پر بڑے فیصلے کرنے کا عندیہ دے دیا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شام کے معاملے پر بین الاقوامی رد عمل کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے جس کے بعد امریکی صدر کا یہ بیان سامنے آیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ’مظلوموں پر گھناؤنے حملے‘ کی مذمت کی اور انہوں نے وائٹ ہاؤس میں کابینہ کا اجلاس طلب کرتے ہوئے کہ کہا کہ اگلے 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران فیصلے سامنے آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ انسانیت کا معاملہ ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: دمشق کے قریب شامی فورسز کا کیمیائی حملہ، 40 افراد جاں بحق

خیال رہے کہ شامی فوج اور اس کے اتحادی نے کیمیائی حملوں کے دعووں کو مسترد کیا تھا اور روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے خبر داد کیا ہے کہ اس معاملے میں دخل اندازی برداشت نہیں کی جائے گی۔

امریکی دفاعی سیکریٹری جم میٹس کا کہنا تھا کہ واشنگٹن نے اب تک حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئیل میکرون نے پرزور مشترکہ رد عمل پر زور دیا ہے۔

اس تنازع پر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں بحث کی جائے گی جبکہ امریکا نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی نئی اور آزاد انکوائری کرانے کے مطالبے کے لیے قرارداد کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ اس معاملے کے دوران ہی شامی فوج کے ایئر بیس پر گزشتہ روز میزائیل حملہ کیا گیا تھا جسے مغربی فوج کی کارروائی بتایا جارہا تھا تاہم دمشق اور ماسکو نے اسرائیل کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شام میں کیمیائی حملہ: یورپی ممالک کا سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ

روس نے بارہا یہ بات باور کرائی ہے کہ شام میں موجود باغیوں نے غیر ملکی فوجی کارروائی کے لیے ورغلا رہے ہیں اور خبر دار کیا تھا کہ مبینہ کیمیائی حملوں کے خلاف کارراوئی نہیں کی جائے۔

یاد رہے کہ دومہ میں موجود ریسکیو اور میڈیکل ذرائع کا کہنا تھا کہ باغیوں کے زیر اثر آخری علاقے میں ہفتے کے روز ہونے والے مبینہ زہریلے گیس کے حملے میں 40 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

شامی فوج کی جانب سے ہفتوں تک بمباری کا سامنا کرنے والے اس علاقے تک رسائی ممکن نہیں جس کی وجہ سے ان حملوں کی آزاد تحقیقات میں دشواری کا سامنا ہے۔


یہ خبر 10 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی