پشاور ہائی کورٹ نے مشال قتل کیس کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلیں یکجا کردیں
پشاور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس وقار احمد سیٹھی نے مشال قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کو یکجا کرتے ہوئے اس کی سماعت پشاور ہائی کورٹ میں کرنے کا فیصلہ سنادیا۔
واضح رہے کہ سماعتوں کی تاریخ کا اعلان کیا جانا ابھی باقی ہے۔
صوبائی حکومت کی ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے دائر کی گئی اپیل جس میں ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کی جانب سے دائر کی گئیں اپیلوں کو پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد سرکٹ بینچ سے پرنسپل سیٹ میں منتقلی کی جائے کو جسٹس وقار احمد سیٹھ نے منظور کریا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل وقار احمد خان کا کہنا تھا صوبائی حکومت کی جانب سے فیصلے کے خلاف مختلف اپیلیں دائر کی گئی ہیں جن میں مشال کے اہل خانہ، ان کے والد اقبال خان اور بھائی ایمل اقبال خان کے علاوہ کیس میں نامزد ملزمان بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: مشال قتل کیس: مرکزی ملزم کا صحتِ جرم سے انکار
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت اور مشال کے اہل خانہ نے عدالت کی پرنسپل سیٹ میں اپیل دائر کی ہیں جبکہ ملزمان نے ان کو سنائی گئی سزا کو پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد سرکٹ بینچ میں چیلنج کیا ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد بینچ نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی 25 ملزمان کو 3 سال قید کی سزا کو معطل کردیا ہے اور ان کی ضمانت پر رہائی کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ انصاف کے مفاد میں ہے کہ تمام اپیلوں کو یکجا کیا ہجائے اور اس کی سماعت پشاور کے ایک ہی بینچ کی جانب سے کی جائے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ مختلف بینچز کی جانب سے اپیلوں پر مختلف فیصلے سامنے آئیں۔
مشال کے اہل خانہ کے وکیل امیر اللہ خان چمکانی نے بھی حکومت کی جانب سے دائر درخواست کی حمایت کی تھی۔
مشال خان قتل کیس — کب کیا ہوا؟
یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔
اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
خیال رہے کہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی اے ٹی سی نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
مشال خان کے بھائی ایمل خان نے 14 فروری کو مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی ہری پور کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مشال خان قتل کیس میں ایبٹ آباد کی اے ٹی سی سے 26 افراد کی بریت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
مشال خان کے والد نے بھی 24 فروری کو اپنے بیٹے کے قتل کیس میں اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف6 اپیلیں پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی تھیں۔
دوسری جانب سزا پانے والے مجرمان نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ میں مشال قتل کیس سے متعلق ہری پور کی اے ٹی سی کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 27 فروری کو 25 ملزمان کی سزاؤں کو معطل کرکے ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے تھے۔
یاد رہے کہ 8 مارچ کو مشال خان قتل کیس کے مرکزی ملزم کو پولیس نے مردان کے علاقے چمتار سےگرفتار کیا تھا۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 10 اپریل 2018 کو شائع ہوئی