’جو بات عمران خان، آصف زرداری نے کی وہی چیف جسٹس کر رہے ہیں‘
اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کا کہنا ہے کہ جو بات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سربراہ آصف علی زرداری کہتے رہے ہیں، وہی بات بدقسمتی سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کر رہے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئندہ عام انتخابات میں تمام لوگوں کو یکساں مواقع ملنے چاہیئں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ کسی کو بند گلی میں دھکیلا نہیں جانا چاہیے، اگر ایسا کیا گیا تو یہ انتخابات سے قبل دھاندلی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ ملک میں عام انتخابات کو ملتوی کردیا جائے، آخر ایسا کیوں کیا جائے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سینیٹرز کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ چیف جسٹس کی باتوں کی نفی کرتا ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات ملتوی نہیں ہوں گے، چیف جسٹس نے شفاف انتخابات سے متعلق جو کچھ کہا وہ درست کہا اور انتخابات کو شفاف بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا گیا، پھر پارٹی صدر کے عہدے سے ہٹایا گیا، اب اگر ایسا ہوگا تو صاف شفاف الیکشن کو بھول جائیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ کسی کو دبایا جارہا ہے اور کسی کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے، اس طرح کی بات کرکے پارٹی بنانا قابل قبول نہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں حکومت کی کارکردگی خراب ہے، ’آپ بتائیں کہ سب سے بہترین کارکردگی کس صوبے کی ہے؟‘ کیونکہ تمام صوبوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔
اس دوران صحافی نے سوال کیا گیا کہ چوہدری نثار کی طبیعت خراب ہے عیادت کے لیے جائیں گے؟ جس پر نواز شریف مسکرا دیئے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ روپے کی قیمت نیچے گرگئی، غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے ایسا ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے 4 سالوں کے دوران ملکی ترقی کی رفتار تیز رہی، تاہم کچھ عدالتی فیصلے ترقی کرتے پاکستان کو تنزلی کی جانب لے جارہے ہیں۔
احتساب عدالت میں سماعت
احتساب عدالت میں نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس میں عدالت نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو گورینکا انٹرنیشنل کی طرف سے فراہم کی گئی دستاویزات کے انڈیکس میں سیریل نمبر 10 پر موجود الراجی بینک کینسورس دستاویزات پر جرح سے روک دیا۔
سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ گورنیکا انٹرنیشنل کی فراہم کی گئی دستاویزات کی کاپیاں اور دیگر متعلقہ دستاویزات بھی موجود تھے، جبکہ انڈیکس میں صرف ان دستاویزات کو ظاہر کیا گیا ہے جو دستخط شدہ ہیں اور مہر بھی ثبت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جلد نمبر 6 میں حاصل کی گئی سورس دستاویزات کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔
نیب پراسیکیورٹر سردار مظفر کا عدالت میں کہنا تھا کہ قانون کے مطابق خواجہ حارث ان دستاویزات پر جرح نہیں کرسکتے جو جمع نہیں کروائے گئے جبکہ خواجہ حارث ان سورس دستاویزات کی بات کر رہے ہیں جن پر ہم انحصار ہی نہیں کر رہے۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزم نواز شریف کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا اعتراف کرچکے ہیں۔
نیب کے گواہ واجد ضیاء نے عدالت سے استدعا کی کہ سیریل نمبر 8کے ساتھ منسلک دستاویزات کو پہلے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کے بعد خواجہ حارث ان پر سوالات کرلیں۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جرح کو صرف متعلقہ حقائق تک محدود ہونا چاہیے، جرح کے دوران 15 مواقع پر خواجہ حارث نے سوالات کو دہرایا جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سچ نکالنے کے لیے مختلف طریقوں سے سوالات پوچھنے پڑتے ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ جرح مکمل نہیں کرنا چاہ رہے گیارہ دن ہوگئے ہیں جرح مکمل نہیں ہو رہی۔
واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے صرف متعلقہ دستاویزات کو رپورٹ کا حصہ بنایا، اگر تمام دستاویزات کو رپورٹ سے منسلک کیا جاتا تو ایک نیا والیم بن جاتا، جبکہ کچھ دستاویزات کو ثبوت نہیں صرف تحقیقات کے لیے استعمال کیا۔
خواجہ حارث کے سوالات پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق جرح کا ایک مقصد ہوتا ہے جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہے تو پھر قطری شہزادے کو سوالنامہ بھجوا دیتے۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جب دستاویزات ہی غیر متعلقہ ہیں تو ان پر جرح کیوں کی جارہی ہے، وکیل صفائی ان دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے دیں پھر جرح کرلیں۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق گواہ کو غلطی پر مجبور کرنے کے لیے غیر ضروری جرح نہیں کی جاسکتی، جو جرح خواجہ حارث کررہے ہیں اعلی عدلیہ نے جرح کے اس طریقے کو رد کررکھا ہے۔
عدالت نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو گورینکا انٹرنیشنل کی طرف سے فراہم کی گئی دستاویزات کے انڈیکس میں سیریل نمبر 10 پر موجود الراجی بینک کینسورس دستاویزات پر جرح سے روک دیا۔
بعدِ ازاں عدالت نے نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کردی۔
احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: مریم نواز کا واجد ضیاء کے دستاویزات پر اعتراض
تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔
بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔
کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔
ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔
نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔
عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔
6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔
7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔
11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔
19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔
3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔
9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔
16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔
22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔
نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔
23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔
مزید پڑھیں: نیب ریفرنسز: شریف خاندان کے خلاف مزید دو گواہان طلب
30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔
نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔
بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔
نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی سے 2 ہفتوں کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 15 فروری کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں 19 فروری کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ریکارڈ سمیت عدالت طلب کیا تھا، جس کے بعد وہ 22 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم بیان ریکارڈ نہیں کراسکے تھے۔
8 مارچ کو احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔
20 مارچ کو احتساب عدالت میں واجد ضیاء کی جانب سے بیان ریکارڈ کرانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا اور انہوں نے نواز شریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا ریکارڈ پیش کیا تھا جبکہ ان کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔
بعد ازاں 30 مارچ کی سماعت کے دوران واجد ضیاء کے بیان پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے جرح کا آغاز کیا گیا اور پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا تھا کہ گلف اسٹیل مل کے کنٹریکٹ کی تصدیق نہیں کرائی اور جے آئی ٹی نے اس کے کنٹریکٹ کو درست تسلیم کیا تھا۔