لائف اسٹائل

جنسی اسکینڈل پر کارروائی نہ ہونے پر نوبل کمیٹی کے 3 ججز مستعفی

دنیا کا معتبر ترین انعام دینے والی کمیٹی کے ایک رکن پر 18 خواتین کو ہراساں اور’ریپ‘ کا نشانہ بنانے کا معاملہ سامنے آگیا

دنیا کے سب سے اہم اور متعبرانعام ’نوبل‘ دینے والی کمیٹی میں بھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور انہیں ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے کا انکشاف ہوا ہے۔

دنیا کے سب سے اہم اور متعبر انعام دینے والی کمیٹی میں بھی جنسی اسکینڈل سامنے آنے اور خواتین کو ہراساں اور ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے والے بااثر ترین شخص کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے بعد احتجاجا نوبل کمیٹی کے 3 ججز نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔

نوبل کمیٹی کے جن ججز یا رکن نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا ہے، ان کا تعلق ادب کمیٹی سے ہے، جب کہ جس رکن کے خلاف خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے کا الزام سامنے آیا ہے، اس کا تعلق بھی اسی کمیٹی سے ہی ہے۔

خیال رہے کہ نوبل انعام دینے والی تنظیم ’سویڈش اکیڈمی آف نوبل کمیٹی‘ یورپی ملک سویڈن میں موجود ہے۔

یہ تنظیم 6 مختلف کیٹیگریز میں ہر سال ’نوبل انعام‘ کا اعلان کرتی ہے۔

اس تنظیم کی 6 کمیٹٰیاں اور مجموعی طور پر اس کے 18 رکن یا ججز ہیں، جو انعام جیتنے والوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق نوبل کمیٹی کی ’ادب کمیٹی‘ کے 3 سینیئر اور اعلیٰ ارکان یا ججز نے 6 اپریل کو اپنے عہدوں سے احتجاجا استعفیٰ دیا۔

احتجاجا استعفیٰ دینے والے ججز میں ’کلاس اوسٹرگرین، جیل اسمپارک اور پیٹر انگلاڈ شامل ہیں، جو نہ صرف ادب کمیٹی کے رکن تھے، بلکہ سویڈن کے معروف لکھاری اور ادیب بھی ہیں۔

ان ممبران نے اپنے عہدوں سے مجبورا اس لیے استعفیٰ دیا کہ ادب کمیٹی کے ایک اعلیٰ ترین اور بااثر رکن کے خلاف خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور انہیں ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے کی شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھیں۔

نوبل انعام 6 کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے—فوٹو: العربیہ

خبر رساں ادارے کے مطابق نوبل کمیٹی میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے کی سب سے پہلی خبر سویڈن اخبار ’ڈیگنس نیئتر‘ نے دی تھی۔

سویڈن کی اخبار نے اپنی خبر میں بااثر رکن کا نام نہ بتاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے خلاف کم سے 18 خواتین سامنے آئی ہیں، جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سمیت ’ریپ‘ کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

خبر میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کتنی خواتین کو ’ریپ‘ کا نشانہ بنایا گیا، تاہم خبر کے مطابق یہ واقعات 1996 سے 2017 کے درمیان ہوئے۔

جس شخص پر خواتین کو ہراساں اور ’ریپ‘ کا نشانہ بنائے جانے کا الزام ہے، اس کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ ان کا سویڈن کے ادبی حلقے میں بڑا اثر و رسوخ ہے۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس شخص کی جانب سے نوبل کی ادب کمیٹی کے ارکان کی بیویوں اور بیٹیوں کو بھی مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی کوشش کی گئی۔

دنیا کے سب سے اہم اور متعبر انعام دینے والے ادارے میں بھی خواتین کے ساتھ نازیبا واقعات سامنے آنے کے بعد مستفیٰ ہونے والے ارکان نے سویڈن میڈیا کو ایک کھلا خط بھی فراہم کیا۔

ارکان کی جانب سے سویڈن میڈیا کو فراہم کیے گئے خط میں کہا گیا کہ جنسی اسکینڈل نے نوبل کمیٹی کو واضح طور پر 2 حصوں میں تقسیم کردیا۔

خبروں کے مطابق نوبل کمیٹی میں جنسی اسکینڈل کا یہ معاملہ گزشتہ برس نومبر میں شروع ہونے والی خواتین کی مہم ’می ٹو‘ کے بعد ہی سامنے آیا۔

بتایا جا رہا ہے کہ اس وقت نوبل کمیٹی کے 18 ارکان یا ججز میں سے 5 غیر فعال ہیں، جن میں سے 2 خواتین ججز کرسٹین اکمان اور لوٹا لوٹاس کئی سالوں کی چھٹیوں پر ہیں۔

اب نوبل کمیٹی کے مزید تین ارکان یا ججز نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ بھی دے دیا، اس وقت دنیا کی اہم ترین اور معتبر ترین اس کمیٹی میں صرف 10 ارکان ہی فعال ہیں۔

واضح رہے کہ سویڈن کا شمار خواتین اور صنفی تفریق کے حوالے سے بہترین ترین ممالک میں ہوتا ہے، تاہم اب اس ملک کی سب سے معزز کمیٹی میں ہی خواتین کو ہراساں اور ’ریپ‘ کا نشانہ بنائے جانے کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔