پاکستانی خواتین کو ’ہڈن فگرز‘ جیسی فلمیں کیوں دیکھنی چاہئیں؟
سائنس فکشن خصو صا خلاء کے سفر پر بنائی گئی بیشترانگریزی فلموں کا المیہ یہ ہے کہ ان میں وہ کچھ دکھایا جاتا ہے جو حقیقت سے بہت بعید ہوتا ہے۔
'مارشین' ہو یا دماغ کی چولیں ہلا دینے والی فلم 'انٹرسٹیلر' یا پھر انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں خلابازوں کے نت نئے تجربات کے گرد گھومتی ہارر مووی ' لائف' ان تمام کی کہانیاں ایسے سائنسی خیالات و تصورات پر مبنی تھیں جن کا اگلے 30 سے 50 برس میں بھی حقیقت میں ڈھل جانا ایک مشکل امر نظر آتا ہے۔
مگر اس دوران کچھ ایسی سائنس فکشن فلمیں بھی بنائی گئیں جو اپنے مضبوط نسوانی کردار اور اس میں چھپے کٹھن حالات کا ہمت و جواں مردی سے مقابلہ کرنے کے خوبصورت پیغام کے باعث تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔
ان یادگار فلموں میں اول نمبر پر 2013 میں ریلیز ہونے والی ڈائریکٹر الفانسو کارون کی کامیاب ترین فلم ' گریویٹی 'ہے جس میں ساندرا بلوک نے ڈاکٹر ریان اسٹون جیسی باہمت خلاباز کا کردار ادا کیا تھا، 2017 کے اوائل میں ایسے ہی مضبوط نسوانی کرداروں پر مشتمل ایک اور فلم ' ہڈن فگرز' منظر عام پر آئی جو کئی حوالوں سے منفرد اہمیت کی حامل ہے۔
سب سے پہلے تو یہ نہ صرف ایک حقیقی کہانی پر مبنی ہے، بلکہ اس کہانی پر اسی نام سے ایک کتاب بھی 2013 میں شائع ہوچکی ہے، جو 1930 سے 1960 کے درمیانی عرصے میں امریکی معاشرے میں ہونے والے بدترین نسلی و صنفی امتیاز کا احاطہ کرتی ہے۔
مارگریٹ شٹرلی کی یہ کتاب لینگ لے ریسرچ سینٹر ناسا میں خدمات سرانجام دینے والی تین سیاہ فام خواتین 'ہیومن کمپیوٹرز' کی جدوجہد کی داستان ہے، ان تین ریاضی دانوں نے اس دور میں سیاہ فام افراد کے حقوق اورامریکی معاشرے میں رائج نسلی و صنفی تعصب کے خلاف آواز بلند کی جب ناسا جیسے معیاری تحقیقی ادارے میں بھی جگہ بنانے کے لییے سیاہ فام افراد خصوصا خواتین کو بے پناہ مصائب و مشکلات کا سامنا تھا۔
اپنی اعلی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ نہ صرف اس معاشرتی تفاوت کو ختم کرنے کا باعث بنیں، بلکہ انہوں نے امریکی خلائی فرینڈ شپ مشن 7 کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے امریکا کو روس کے خلاف خلائی دوڑ میں برتری دلوانے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
5 جنوری 2017 کو ریلیز کی گئی اس فلم کے ڈائریکٹر تھیوڈور میلفی ہیں، جبکہ اس کا اسکرپٹ بھی میلفی نے ایلیسن شروڈر کے ساتھ لکھا ہے، فلم میں ڈوروتھی واگن کا مرکزی کردار اوکٹاویہ اسپینسر نے جب کہ دیگر 2 انجینئرز کیتھرین جانسن اور میری جیکسن کے کردار بالترتیب تارا جی پی ہینسن اور جینیلی مونی نے نبھائے ہیں۔
ان تینوں خواتین نے 1961 میں امریکی خلا باز جان گلین کو مدار میں بھیجنے کے 'مرکزی منصوبے' میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، وروتھی واگن کو امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام ناسا خاتون سپر وائزر ہونے کا اعزاز حاصل ہونے کے علاوہ ناسا کی تاریخ کا ذہین ترین دماغ قرار دیا جاتا ہے۔
کیتھرین جانسن جن کی خلاء کا سفر ممکن بنانے کی خدمات کے اعتراف میں ناسا نے باقاعدہ اپنی کمپیوٹیشنل عمارت ان کے نام کی ہے، انہوں نے مرکزی مشن اور چاند پر بھیجے جانے والے اب تک کے پہلے اور آخری ' اپولو الیون مشن' میں اسپیس شٹل کی ٹراجیکٹری کا (وہ راستہ جس پر شٹل نے سفر کر کے جانا اور زمین پر واپس آنا تھا) بنیادی حساب و کتاب کرکے اہم کردار ادا کیا، جب کہ میری جیکسن امریکا کی پہلی سیاہ فام ایروناٹیکل انجینئر تھیں جنھوں نے باقاعدہ عدالتی جنگ لڑکر ایرو ناٹیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کرنے کا اجازت نامہ حاصل کیا، کیوں کہ اس دور میں سیاہ فام خواتین کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی۔
فلم کی کہانی ان 3 خواتین کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے، ایک جانب ڈوروتھی واگن کو ناسا میں مستقل سپر وائزر کی پوسٹ کے لیے اپنے سینئر آفیسرز کی مخالفت کا سامنا تھا، تو دوسری جانب کیتھرین مرکزی منصوبے کے انجینئرز کے ساتھ ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور تھیں جہاں اسے نہ باتھ روم کی سہولت حاصل تھی، نہ کھل کر بات کرنے کی، حتیٰ کے اچھوتوں کی طرح اس کے کافی کے برتن بھی الگ کر دیئے گئے تھے، جبکہ اسپیس شٹل اور کیپسول کی تیاری میں انجینئر کے طور پر کام کرنے والی میری جیکسن کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے باقاعدہ قانونی جنگ لڑنا پڑی، مگر ابتدائی ناکامیوں، شدید رکاوٹوں اور ہتک آمیز رویوں نے ان کی ہمت پست کرنے کے بجائے، انہیں اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑنے کا نیا حوصلہ عطا کیا۔
اگرچہ حقیقی کہانی اور اس پر لکھی گئی کتاب اور فلم کے اسکرپٹ میں کئی جگہ نمایاں فرق محسوس ہوا، مگر یہ تفاوت کسی بھی جگہ ناگوار محسوس نہیں ہوتا، کیوں کہ کمرشلائز کرنے کے لیے اصل حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
اس امر میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ پاکستان سمیت پسماندہ ممالک کی خواتین کے لیے یہ ایک بہترین فلم ہے، جنہیں 21 ویں صدی میں بھی جائز حقوق کے لیے بے پناہ پابندیوں اور صنفی امتیاز کا سامنا ہے، اگرچہ آج امریکا میں وائٹ ہاؤس سے لیکر پینٹاگون اور ناسا تک ہر جگہ خواتین نمایاں تعداد میں نظر آتی ہیں، مگر 1960 کے عشرے میں خواتین کو وہاں بھی نہ صرف کم تر سمجھا جاتا تھا بلکہ عمومی رائے یہ تھی کہ خلائی مشن یا اسپیس شٹل سے متعلق امور کے لیے وہ قطعا نا موزوں اور نا اہل ہیں، کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا آج پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنی صلاحیتیوں سے جگہ بنانے کی کوشش کرنے والی خواتین کو بھی ہیں۔
بہترین اسکرین پلے اور معاون اداکارہ (اوکٹاویہ اسپینسر) سمیت 3 آسکر نامزدگیاں، 2 گولڈن گلوب ایوارڈز اور بہترین اسکرین ایکٹر گلڈ ایوارڈ (اوکٹاویہ اسپینسر) حاصل کر کے 2017 کی 10 بہترین فلموں میں جگہ بنانے والی یہ یادگار فلم دنیا بھر کی خواتین کو بلند عزائم اور حوصلے کا یہ پیغام دے گئی کہ ’زندگی ایک نہ سمجھ میں آنے والی پھیلی ہے، یہاں دکھوں کی کڑی دھوپ بھی ہے اور سکھ کی میٹھی چھاؤں بھی، لیکن اس چھاؤں کا حقدار وہی ٹھہرتا ہے جو وقتی ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے اپنی بقاء کی جنگ جاری رکھتا ہے، لہذا ٰاپنی ناکامی کو کبھی بھی شکست مت بننے دیں‘۔