دبئی، جہاں زندگی اب بھی کرائے پر ملتی ہے
دبئی، جہاں زندگی اب بھی کرائے پر ملتی ہے
میں پاکستان سے باہر پہلا قدم رکھنے جارہا ہوں۔ خود کو بتا رہا ہوں کہ ہاں دنیا یہیں ختم تو نہیں ہوتی، زندگی صرف ایسی تو نہیں ہوتی، رہن سہن، قصے کہانیاں، جو آنکھوں نے صرف اسکرین پر دیکھا، سنا، وہ سب صرف آنکھوں سے بھی دیکھنا ہے۔ ہاں، ننگی آنکھوں سے۔
دبئی آگیا ہے، مجھے یاد ہے بچپن میں ٹی وی ڈرامہ آتا تھا ‘دبئی چلو’، اسے دیکھ کر یہی سوچتا تھا کہ وہاں کیا خزانہ دفنایا ہوا ہے، یہاں ایسا کیا ہے جو سب یہاں بھاگے چلے آنے کو بے تاب ہیں؟ کیا یہ وہی کوہ قاف میں آباد پرستان ہے جس کا ذکر عمرو عیار کی کہانیوں میں ہوتا تھا؟
بلند و بالا عمارتیں، صاف ستھری سڑکیں، اور ان پر بھاگتی ہر رنگ و نسل کی مہنگی ترین گاڑیاں، سورج کو بھی کھلی چھٹی ہے، صحرا میں جیسے ایک میلہ سجا ہے، انسان کا بنایا ہوا، ایک تماشہ سا لگا ہے۔ 190 ملکوں کے لوگ ایک ملک میں چھٹیاں منا رہے ہیں، کاروبار ڈھونڈ رہے ہیں، مزدوریاں کر رہے ہیں۔
شاپنگ مالز میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہے، صحراؤں میں گاڑیاں بھاگتی پھرتی ہیں، اونچی عمارتوں نے آسمان ڈھانپا ہوا ہے۔ پوری دنیا کی آسائشوں کو ایک ہی جگہ اکٹھا کردیا گیا ہے، نت نئے تجربے ہورہے ہیں، سمندر کو ڈھانپ کر انسان آباد کیے جارہے ہیں۔ مغرب جن میلوں، تفریحات اور مشغلوں کی وجہ سے مشہور تھا اب وہی سب سامان عرب کے اس صحرا میں دستیاب ہے، اور وہ بھی مغرب سے کئی گنا آگے۔