پاکستان

الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق تنازعات کو خطرہ قرار دے دیا

کمیشن کےایک اعلیٰ عہدیدار نےوزیرِ نجکاری اورپارلیمانی کمیٹی برائے حلقہ بندی کے ورکنگ گروپ کے کنوینر کے موقف کی مذمت کی۔

اسلام آباد: نئی حلقہ بندیوں سے متعلق مسودے پر اعتراضات جمع کروانے کی آخری تاریخ گزر جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے نئی حلقہ بندیوں کے پورے عمل کے خلاف تنازعات کھڑے ہونے کے حوالے سے خبر دار کردیا۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وزیرِ نجکاری اور پارلیمانی کمیٹی برائے حلقہ بندی کے ورکنگ گروپ کے کنوینر دانیال عزیز کے موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ورکنگ گروپ نے اس موقع پر مجوزہ مسودے کو ناقص قرار دے کر اسے مسترد کردیا اور اس حوالے سے انکوائری کا حکم دیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حلقہ بندیوں پر الیکشن کروانے کی بھی تجاویز پیش کردیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’یہ واضح ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیوں کی رپورٹ کو منظور نہیں کیا اور شکایات کے حوالے سے اس میں اعتراضات اٹھانے اور سماعت کا ایک عمل موجود ہے، لہٰذا غیر ضروری تنازعات اٹھا کر کچھ عناصر انتخابات کو ملتوی کرنے کی آگ کو تیل فراہم کررہے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں:وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی نشستوں میں اضافہ

مسلم لیگ (ن) میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ای سی پی سیکرٹریٹ سے رابطہ کیا تھا اور انہیں یہ پیغام پہنچایا تھا کہ دانیال عزیز کی جانب سے لیا گیا موقف پارٹی پوزیشن کو بیان نہیں کرتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے دانیال عزیز کے اس بیان پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر کرائے جائیں۔

پی پی پی کی ترجمان ڈاکٹر نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت دانیال عزیز کے بیان کی نہ ہی تائید کرتی ہے اور نہ ہی اسے منظور کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پالیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے متفقہ طور پر آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ مسلم لیگ (ن) آخر کیوں وقت پر انتخابات کے منظور شدہ فارمولا سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ حکمراں جماعت انتخابات کو ملتوی کرنا چاہتی ہے جو ہمیں منظور نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں: ‘الیکش کمیشن نے 300 تجاویز پر کس سے مشاورت کی؟‘

پیپلز پارٹی کی ترجمان نے کہا کہ جس طرح سے کمیٹی کے معاملات کو چلایا گیا وہ ابتدا سے ہی جارحانہ اور تصادم کے ہیں۔

نفیسہ شاہ نے کہا کہ اپیل کے لیے بہترین فورم الیکشن کمیشن ہے اور اگر وہاں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 20 کی خلاف ورزی نظر آئے تو پھر بہترین فورم سپریم کورٹ ہے‘۔

پاکستان تحریک انصاف نے بھی پارلیمانی کمیٹی برائے حلقہ بندی کے ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران نے بھی دانیال عزیز کے موقف سے اختلاف کیا۔

مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں: صوبائی اسمبلی میں لاہور کی 5 نشستوں میں اضافہ

ادھر الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ نمائندوں کی تعداد ایک ہزار 2 سو 86 تک پہنچ گئی ہے جن میں سے 706 پنجاب، 284 سندھ، 192 خیبرپختونخوا اور 104 بلوچستان سے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان نمائندگیوں کی سماعت کا آغاز 4 اپریل سے ہوگا، جس میں تمام حلقوں کے نقشوں کو ڈیجیٹل اسکرین پر بھی دکھایا جائے گا۔

ای سی پی حکام کا کہنا تھا کہ کمیشن کسی بھی طرح کے سیاسی دباؤ میں نہیں آئے گی اور صرف ان ہی اعتراضات کو دیکھا جائے گا جن میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 20 کے اصولوں کی خلاف ورزی ثابت ہوگی۔


یہ خبر 04 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی