پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک اہم کتاب: 'ذوالفقار علی بھٹو'
پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک اہم کتاب: 'ذوالفقار علی بھٹو'
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ آپ چاہے بھٹو کے حامیوں سے بات کریں یا مخالفین سے، ان دونوں میں ایک چیز یکساں پائیں گے اور وہ ہے بھٹو کے حوالے سے معلومات کی کمی۔ ہمارے 71 سالہ قومی سفر میں چند سالوں کے لیے رہنما رہنے والے بھٹو کے بارے زیادہ تر لوگ بھٹو کے بارے میں کم جانتے ہیں، مگر انہی کی شخصیت وہ ہے جس پر آج تک سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے۔
زیرِ نظر کتاب 'دیدہ ور کی داستانِ حیات، ذوالفقار علی بھٹو' ان کے دیرینہ رفیق اور بھٹو دور میں وزیرِ مذہبی امور رہنے والے مولانا کوثر نیازی کی تحریر ہے۔ بھٹو کی 39 ویں برسی پر مولانا کوثر نیازی کی اس کتاب کا مطالعہ حامیوں اور مخالفین دونوں ہی کے لیے مفید رہے گا، اور اگر کسی بھی حوالے سے آپ کے خیالات بدلنے میں ناکام رہے تو بحث کے لیے چند نئے دلائل ضرور مل جائیں گے۔
سیاست میں آمد اور ابتدائی سال
سوانح طرز پر لکھی گئی اس کتاب کا دیباچہ نہایت دلچسپ ہے جس کا اقتباس اس مضمون کے آخر میں آئے گا۔ کتاب کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو سے ہونے کے بجائے ان کے خاندانی حالات، سر شاہنواز بھٹو کی متحدہ ہندوستان میں سیاسی اہمیت اور بھٹو خاندان کے انگریز دور میں اثر و رسوخ سے ہوتا ہے اور وہاں سے یہ رخ بھٹو کی تعلیم، وکالت کی پریکٹس اور پھر سیاسی پرورش کی جانب مڑ جاتا ہے۔
بھٹو کے مخالفین کی طرف سے ایک الزام جو ان پر عائد کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انہیں سیاست اور حکومت میں لانے والے ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان تھے، جن کے کندھوں پر پیر رکھ کر بھٹو نے سیاست میں اپنی جگہ بنائی مولانا کوثر نیازی واضح کرتے ہیں کہ بھٹو کسی سفارش کے نتیجے میں کابینہ میں نہیں آئے۔ بلکہ جہاں سر شاہنواز بھٹو سندھ کی سیاست اور جونا گڑھ کی وزارت میں پہلے ہی اتنے سرگرم تھے، وہاں بھٹو کو سیاست میں آنے کے لیے کسی کے کندھے کی ضرورت نہیں تھی۔
پڑھیے: بھٹو کی پھانسی: انصاف یا عدالتی قتل؟
اس کے برعکس انہیں وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی کے دور میں اقوامِ متحدہ جانے والے ایک وفد کے ساتھ بھیجنے کی تجویز پیش کی گئی اور بعد میں وہ وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کے دور میں 1957ء میں پہلی بار اقوامِ متحدہ گئے جہاں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی اور اس کے بعد 1958ء میں اقوامِ متحدہ کی کانفرنس برائے سمندری قوانین میں شرکت کے لیے گئے اور یوں انہوں نے پہلے ہی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بلند حیثیت حاصل کرلی تھی۔