کیا کراچی گرمی کی اگلی شدید لہر کے لیے تیار ہے؟
گرمیاں ابھی شروع ہی ہوئی ہیں مگر کراچی کے زیادہ تر حصے ابھی سے ہی بھٹی کی طرح گرم ہونے لگے ہیں۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ خود کو اوسط سے ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ درجہ حرارت کے لیے تیار رکھیں۔ مگر یہ اس شہر کے لیے گرمی کی پہلی لہر نہیں ہے۔
2015 میں لاشوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار
تین سال قبل پاکستان میں 50 سال کی بدترین گرمی کی لہر آئی تھی۔ اس سال 19 جون سے اس ساحلی شہر میں 5 دن سے زیادہ تک وہ گرمی پڑی کہ 1200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور 40 ہزار افراد ہیٹ اسٹروک اور گرمی کی وجہ سے تھکان کا شکار ہوئے۔
قیامت خیز گرمی کے پہلے دن کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کراچی کے جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی ہیں کہ "مرنے والوں میں زیادہ تعداد عمر رسیدہ افراد کی تھی جو پہلے ہی دوسرے عارضوں کا شکار تھے جو گرمی کی وجہ سے شدت اختیار کر گئے۔ یہ لوگ گنجان آبادیوں سے تعلق رکھتے تھے اور معاشرے کے دیوار سے لگے ہوئے طبقات سے تھے۔"
وہ کہتی ہیں کہ "اگر فوج نہ آتی تو ہم حالات کو قابو نہیں کر سکتے تھے۔" اگلے 4 سے 5 دن تک درجہ حرارت 42 سے 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے بیچ میں رہا اور اس نے کم ہونے کا نام ہی نہیں لیا۔
جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی میں 29 سال سے اسٹاف نرس کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دینے والی نسیم اختر یاد کرتی ہیں کہ ہسپتال میں "لاشوں کی ختم نہ ہونے والی قطار آ رہی تھی۔"
وہ بتاتی ہیں کہ وہ گرم ہواؤں یعنی لو اور اس صورت میں احتیاطی تدابیر سے تو واقف تھیں مگر کہتی ہیں کہ "میں نے اس سے پہلے ہیٹ ویو کا لفظ نہیں سنا تھا۔ یہ نہایت مختلف صورتحال تھی۔ ہوا چل ہی نہیں رہی تھی۔"
جناح ہسپتال کی ہیڈ نرس ڈیزی نسرین کہتی ہیں "موت کا تجربہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا مگر اس دن تو نہایت بے چارگی کی صورتحال تھی۔"
"جب ہمارے پاس اسٹریچر ختم ہوگئے تو ہم نے لاشوں کو فرش پر رکھنا شروع کر دیا۔ ہم نے ایدھی فاؤنڈیشن سے لاشیں لے جانے کے لیے درخواست کی مگر انہوں نے کہا کہ ان کی ایمبولینسیں زندہ افراد کو لانے میں مصروف تھیں۔ ان کے پاس (ایدھی) سردخانے مین مزید لاشیں رکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ وہ ایک خوفناک، نہایت خوفناک ہفتہ تھا۔"
موسمیاتی تبدیلی کا دور
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول کہتے ہیں کہ ہیٹ ویوز اب "مستقل، شدید، اور زیادہ طویل عرصے کے لیے آیا کریں گی۔"
گزشتہ سال نیچر کلائمیٹ چینج جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں "مہلک" ہیٹ ویوز کا تسلسل اب بڑھے گا۔ تحقیق میں مزید پایا گیا کہ اونچے عرض البلد کے برعکس خطِ استوا کے قریبی علاقوں میں ہیٹ ویوز زیادہ بدترین ہوں گی۔
2015 کی گرمیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے غلام رسول کہتے ہیں کہ کراچی میں ماضی میں زیادہ درجہ حرارت (43 ڈگری سینٹی گریڈ) اور ہیٹ ویوز بھی آ چکی تھیں، "مگر ان کا 4 سے 5 دن تک باقی رہنا بے مثال تھا۔"
ان کے مطابق اس کے علاوہ نمی کے زیادہ تناسب کی وجہ سے ہیٹ انڈیکس لیول (جسے 'فیلز لائک' یعنی گرمی کتنی محسوس ہو رہی ہے کہا جاتا ہے۔)
وہ خبردار کرتے ہیں کہ "تین سال قبل رونما ہونے والا اربن ہیٹ آئلینڈ افیکٹ اب مستقبل میں زیادہ تسلسل اور شدت کے ساتھ رونما ہو سکتا ہے۔"
جب درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تھا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ 50 تک جا پہنچا ہے۔ سندھ میں یہ درجہ حرارت اکثر کئی شہروں میں ہوتا ہی ہے مگر اس سے اموات نہیں ہوتیں۔
یہ اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ گرم ہوا تندور کی طرح پھنس جاتی ہے اور باہر نہیں نکل پاتی۔
اور جب باہر گرمی اور نمی کا تناسب زیادہ ہو تو انسانی جسم اپنی گرمی پسینے کے ذریعے باہر نکال کر خود کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ اس سے ہیٹ ٹوکزیسٹی کہلائی جانے والی حالت پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی اعضاء کو نقصان پہنچتا ہے۔