خیبرپختونخوا کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی جامع رپورٹ طلب
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ اگر سرحدوں پر رہنے والوں پر سخت نگرانی نہ کی گئی تو وہ خطرناک بن سکتے ہیں۔
لاپتہ افراد کیس پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سربراہ جج کا کہنا تھا کہ خفیہ ایجنسی یا ایک سیکیورٹی ادارے کو ملک کی سرحدوں پر مسلسل نگرانی کرنی ہوگی تاکہ دیکھ سکیں کہ کون ملک میں داخل ہو رہا ہے اور کون پڑوسی ممالک میں جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے حکومت کو خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں قائم 11 قید خانوں میں قید افراد کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم جاری کیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کی لاپتہ افراد کے کمیشن کو تنبیہ
عدالت کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں بتایا جائے کہ کس قیدی کا کیا جرم ہے، کیا ان پر کیسز درج ہیں یا نہیں اور ان کے کیسز کی حیثیت کیا ہے اور کس عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
جسٹس اعجاز افضال خان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جب لوگ لاپتہ ہوں یا قتل کیے جائیں، اغوا ہوں یا لوگوں کے خود ساختہ گمشدہ ہونے یا پڑوسی ممالک چلے جانے پر اقدامات کرے کیونکہ صرف ریاست کے پاس اس معاملے کو دیکھنے کا اختیار اور وسائل ہیں۔
انکوائری کمیشن کی جبری گمشدگیوں پر کردار کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ریاست شہریوں کو تحفظ دینے کی ذمہ دار ہے اور جب یہ کیسز عدالتوں میں آتے ہیں تو ریاست کو جواب دینا چاہیے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ کمیشن کو خفیہ اداروں کو لاپتہ افراد کیس میں عدالت میں پیش کرنے کے بجائے وہ خود بھی عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک لاپتہ شخص کے اہل خانہ کو معلوم ہوا ہے کہ ان کے عزیز کو بغیر دفاع کا موقع دیئے سزائے موت سنا دی گئی ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے ایڈووکیٹ رحیم کی عدالت میں پیش ہونے کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے وکیل نہیں ہیں۔
تاہم جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ یہ ملک اور قوم کی عدالتیں ہیں اور یہاں سب کو اپنی پریشانیاں سنانے کا اختیار ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی عدالتوں سے سزا پانے والے زیادہ تر افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور خود کے لیے جنت جانے کا ٹکٹ حاصل کرلیا ہے جبکہ دہشت گردی میں گرفتار تمام افراد کو کونسل رسائی دی گئی تھی۔
حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کے والدین یا دیگر اہل خانہ کو الاؤنس دینے کے آغاز کے حوالے سے انہوں نے کہا ہے اس حوالے سے پالیسی پر غور کیا جارہا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول پڑھا کہ ’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ) سے اس بارے میں پوچھا جائے گا‘ اور یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد بازیابی کیس: سندھ ہائی کورٹ کا پولیس کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ جب لوگ گمشدہ ہوتے ہیں تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
واضح رہے کہ مئی 2011 میں لاپتہ افراد کے کیس کے حوالے سے سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ حکومت لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو استحکامی الاؤنس دینے کی پیشکش پر غور کر رہی ہے۔
اس وقت کے اٹارنی جنرل کے کے آغا نے عدالت کو بتایا تھا کہ حکومتی ادارے جو غربت کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں، پاکستان کے بیت المال سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو 60 ہزار روپے تک کی رقم فراہم کریں گے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ جو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کئی عرصے سے کام کر رہی ہیں نے عدالت کو بتایا تھا کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو قید خانوں میں موجود قیدیوں کی مستقبل کے حوالے سے نہیں بتایا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ قید خانوں میں قید 105 افراد کی لاشوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا گیا ہے۔
رجسٹرار آف کمیشن نسیم خان نے عدالت کو بتایا کہ 31 مارچ تک 3 ہزار 2 سو 19 کیسز کو خارج کیا جا چکا ہے جبکہ 1 ہزار 7 سو 10 کیسز اب بھی کمیشن میں موجود ہیں۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 3 اپریل 2018 کو شائع ہوئی