پاکستان

عدلیہ مخالف تقاریر: لاہور ہائیکورٹ کا فل بینچ دوبارہ تشکیل

نئے بینچ کی سربراہی جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کریں گے جبکہ فل بینچ پٹیشنز کی سماعت 2 اپریل سے کرے گا۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد یاور علی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف دائر پٹیشنز کی سماعت کے لیے فل بینچ تشکیل دے دیا۔

2 اپریل سے پٹیشنز کی سماعت کرنے والے نئے فل بینچ کی سربراہی جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کریں گے جبکہ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس عطر محمود اور جسٹس شاہد مبین شامل ہیں۔

اس سے قبل یہ فل بینچ ہائی کورٹ میں ججز کو نئے روسٹر کی فراہمی کے باعث تحلیل کردیا گیا تھا اور نئے روسٹر کے مطابق اس سے قبل مذکورہ بینچ میں شامل جسٹس شاہد بلال حسن کو ملتان ٹرانسفر کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: نواز شریف، مریم نواز سے 15 مارچ تک جواب طلب

چیف جسٹس نے جسٹس شاہد بلال حسن کی جگہ جسٹس شاہد مبین کو فل بینچ کا حصہ بنایا، جبکہ اس سے قبل بینچ نے مذکورہ پٹیشنز پر سماعت کا آغاز نہیں کیا تھا۔

یہ پٹیشنز آمنہ ملک، منیر احمد اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں ہیں جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی تقاریر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ پیمرا نے مذکورہ تقاریر کے نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی اور اس کی خاموشی کے باعث نفرت انگیز تقاریر اور بیانات نشر ہوئے جبکہ ادارہ قانون اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہا ہے۔

پٹیشنز میں کہا گیا کہ پیمرا، ایک ریگولیٹر کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے اور وہ حکومت کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کررہا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: وزیر اعظم کو عدلیہ مخالف تقریر پر نوٹس جاری

درخواست گزاروں نے زور دیا کہ پیمرا حکام کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ملازم نہیں ہیں اور انہیں ہر صورت میں پاکستانی شہریوں اور ملک کے اداروں کا تحفظ کرنا ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پیمرا کو ہدایت کی جائے کہ وہ میڈیا کو ریاست کے اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کا غیر قانونی مواد اور تنقید کو نشر نہ کرنے کا پابند کریں۔


یہ رپورٹ یکم اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی