پاکستان

حکومت کی ‘عدالتی فیصلے کی غلط تشریح‘ سے پرویز مشرف کو فائدہ پہنچا

وزارت داخلہ احسان اقبال نے نادرا اور پاسپورٹ حکام کو عدالتی حکم نامے پر عملدرآمد سے روک دیا تھا۔

اسلام آباد: غداری کیس میں نامزد سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف عدالتی حکم نامے کے باوجود وزارت داخلہ مفرور ملزم کے سفری کاغذات منسوخ کرنے میں ناکام ہے جبکہ وفاقی حکومت عدالتی حکم کی بجا آواری میں نااہلی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

واضح رہے کہ تین ججز پر مشتمل بینچ نے آئین سے غداری کیس میں وزارت داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کو منسوخ کردیا جائے اور انٹرپول کے ذریعے ان کی وطن واپسی کے اقدامات کیے جائیں لیکن وزارت داخلہ احسان اقبال نے پرویز مشرف کی از خود واپسی کے پیش نظر 16 مارچ کو نادرا اور پاسپورٹ حکام کو عدالتی حکم نامے پر عملدرآمد سے روک دیا تھا۔

یہ پڑھیں: ’کوئی ایسی عدالت ہوگی جو پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ کرے؟‘

ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے عدالتی حکم نامے کی غلط تشریح کی جس کے باعث سابق آرمی چیف کو قانونی فاہدہ پہنچا۔

خیال رہے کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے سربراہ بھی ہیں اور ان کے خلاف غداری کیس 31 مارچ 2016 سے التواء کا شکار ہے تاہم انہیں خصوصی عدالت میں کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت الزامات کا بھی سامنا کرنا ہے لیکن وہ بیرون ملک روانہ ہو گئے تھے جس کے باعث انہیں مفرور ملزم بھی قرار دیا جا چکا ہے۔

اس کے علاوہ پرویز مشرف کو دیگر عدالتوں کی جانب سے ججز کو قید کرنے اور بینظر بھٹو قتل کیس میں مفرور قرار دیا ہے۔

وزارت داخلہ کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری دلشاد بابر کے مطابق خصوصی عدالت کے 8 مارچ کے حکم نامے میں درج ہے کہ اگر ملزم (پرویز مشرف) 21 مارچ 2018 تک عدالت کے سامنے پیش ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہ 7 دن کے اندر وزارت داخلہ کو اپنی سیکیورٹی کے لیے تحریری درخواست دیں جو انہیں پراسیکیوشن کے سربراہ کی جانب سے 19 مئی 2017 کو دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: 'پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کو انجام تک پہنچایا جائے'

عدالتی ہدایت کے اگلے روز ہی بینچ ٹوٹ گیا کیونکہ بینچ کے ایک جج نے سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ کو خصوصی عدالت کے حکم نامے پر عملدرآمد کے لیے رسائی حاصل کی گئی لیکن وزارت داخلہ نے پرویز مشرف کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سے متعلق منسوخی پر دی جانے والی ہدایت کی تشریح میں ‘غلط بیانی’ کی۔

اس حوالے سے ذرائع نے مزید بتایا کہ پراسیکیوشن نے وزارت داخلہ احسن اقبال کو آگاہ کیا کہ سینئر جوائنٹ سیکریٹری دلشاد بابر نے عدالتی حکم نامے کی غلط تشریح کی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وزارت داخلہ کا ملزم کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اقدام عدالتی توہین کے زمرے میں آسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا بینچ ٹوٹ گیا

دلشاد بابر نے بتایا کہ پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے وزارت داخلہ میں ملزم کی واپسی سے متعلق تحریری درخواست جمع کرائی اس لیے وزارت نے ان کے سفری دستاویزات منسوخ نہیں کیے۔

اختر شاہ کے مراسلے میں موقف اختیار کیا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب ذرائع نے انکشاف کیا کہ سیاست دانوں کی بڑی تعداد پرویز مشرف کی وطن واپسی نہیں چاہتی کیونکہ پی سی او کے نفاذ میں متعدد ریٹائر آرمی افسران اور سیاستدان ان کے ہمراہ تھے۔

پرویز مشرف نے 2014 میں دائر درخواست میں الزام عائد کیا تھا کہ 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی، سابق نیول چیف افضل طاہر اور سابق ائیر اسٹاف چیف تنویر محمود احمد سمیت کور کمانڈرز ان کے ساتھ تھے۔

پرویز مشرف کی درخواست میں شیخ رشید احمد، جہانگیر خان ترین، غلام سرور خان، خورشید محمود قصوری، زاہد حامد، ہمایوں اختر خان، ڈاکٹر غازی گلاب جمال، مخدوم فیصل صالح حیات، چوہدری نوریز شکور، اعجاز الحق، راؤسکندر اقبال، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، بابر خان غوری، زبیدہ جلال، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، اویس احمد خان لغاری، لیاقت علی جتوئی، سردار یار محمد خان رند، غوث بخش مہر، نصیر خان، جمال خان، جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی، مرحوم شہر افغان نیاز، مرحوم جسٹس (ر) عبدالرزاق، میجر (ر) حبیب اللہ واڑیچ، میجر (ر) طاہر اقبال، چوہدری وصی ظفر، چوہدری شہباز حسین، امان اللہ خان جدون، شمیم صدیقی، مشتاق علی چیمہ اور میاں شمیم حیدر کے نام شامل ہیں۔


یہ خبر یکم اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی