فائل فوٹو: سمیرا شیکل
ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق لاہور میں زمینی پانی کی سطح میں ہر سال 2.5 سے 3 فٹ تک کی کمی ہوتی ہے، اور اب یہ شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ شہر کے مرکزی حصے میں پانی 130 فٹ سے نیچے آگیا ہے اور گلبرگ کے علاقے میں تقریباً147 فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ اگر زیرزمین پانی کو محفوظ نہ کیا گیا اور پانی نکالنے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2025ء تک زیادہ تر علاقوں میں پانی 230 فٹ نیچے جانے کی توقع کی جاتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی گہرائی پر، کوئی بھی گنجائش رکھنے والا ٹیوب ویل لگا کر جتنا چاہے پانی نکال سکتا ہے۔ تاہم یہ صورتحال جلد ہی تبدیل ہونے والی ہے۔ صوبائی حکومت کے محکمہ آبپاشی نے اس قیمتی وسیلے کے بے در یغ استعمال کی روک تھام کے لیے پنجاب گراؤنڈ واٹر پروٹیکشن، ریگولیشن اور ڈیولپمنٹ ایکٹ 2017 تیار کیا ہے اور اس وقت مختلف اداروں سے مشاورت کا مرحلہ جاری ہے۔ اس ایکٹ کے نافذ ہوجانے کے بعد تجارتی اور صنعتی اداروں کو زمینی پانی نکالنے کے لیے اجازت حاصل کرنی پڑے گی۔ بلدیاتی پانی کے انتظام کے لیے 2014ء میں پنجاب میونسپل واٹر ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا لیکن اب تک اس کو نافذ نہیں کیا جا سکا۔
مسئلے کا تعلق صرف زیر زمین پانی کی مقدار کم ہونے سے نہیں ہے بلکہ اس کی صنعتی اور گھریلو فضلے کی وجہ سے آلودہ ہونے سے بھی ہے۔
پچھلے سال سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق نے پورے پاکستان سے تقریباً 1200 زمینی پانی کے نمونے کے تجزیے کے بعد بتایا کہ چھ کروڑ افراد کو مہلک آرسینک کا خطرہ لاحق ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے پینے کے پانی میں آرسینک کی جو حد مقرر کی ہے، وہ 10 مائیکرو گرام فی لیٹر پانی ہے، لیکن پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ 50 مائیکروگرام فی لیٹر پانی قابل قبول ہے۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے ‘‘آرسینک کا بہت زیادہ تناسب ، یعنی تقریباً 200 مائیکروگرام فی لیٹر خصوصی طور پر ملک کے جنوبی حصے میں پایا جاتا ہے’’، اور تنبیہہ کی ہے کہ آرسینک والے پانی کا باقاعدگی سے استعمال جلد کے امراض، پھیپھڑوں کے کینسر اور دل کی بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے۔
اس سال کے شروع میں، پنجاب حکومت نے تمام 36 اضلاع میں کارروائی کا آغاز کیا اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے گندے صنعتی پانی اور فضلے سے سیراب ہونے والی کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا۔ آگے چل کر ان کسانوں کو صرف غیرخوردنی فصلیں، جیسے کہ بانس، پھول اور گھر میں ا گائے جانے والے پودوں کی کاشت کی اجازت دی جائے گی۔
آبپاشی میں قیمتی پانی استعمال ہوتا ہے، لیکن فائدہ بہت کم ہے
آبی وسائل کی پالیسی کے ماہر اور تربیت اور معلومات کے اشتراک کے لیے قائم کردہ بین الاقوامی مرکز برائے اجتماعی ترقی پہاڑ (International Center for Integrated Mountain Development - ICIMOD) کے سینیئر مشیر ڈاکٹر خالد مہتداللہ کا کہنا ہے کہ پانی کی سب سے زیادہ ضرورت شعبہ زراعت کو ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا ’’تقریباً 95 فیصد تازہ پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے باوجود بھی پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں زرعی پیداوار سب سے کم ہے۔‘‘ فصلوں کو بہت زیادہ پانی دینے کے باوجود پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے۔ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے مطابق اس ملک میں پانی کی فی یونٹ پیداوار 0.13 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے، جو پورے قطعے میں سب سے کم ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں پیداوار کی شرح 0.39 کلوگرام فی مکعب میٹر اور چین میں 0.82 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے۔
انور بتاتے ہيں ’’پاکستان نے اپنے آبپاشی کے علاقے کو (برطانوی سامراج کے زمانے سے) بڑھانے کا آغاز کیا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان قطعوں سے مزید فائدہ اٹھانے کے بجائے، زیادہ زمین کو سیراب کرنے کی کوشش کی۔‘‘ انہوں نے کچھی کینال پراجیکٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا بھی مقصد زیادہ زمین کو سیراب کرنا ہے۔
مہتداللہ کہتے ہیں، ’’زراعت کے پانی کو دیگر سماجی اور اقتصادی شعبوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا ریاست کا بہت بڑا چیلنج ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے کیونکہ اس میں پانی کے بہتر انتظام اور سائنسی علوم میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور اس سب کے لیے عزم کے علاوہ وسائل کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
اس کے علاوہ، انور کا کہنا ہے کہ ایسے کئی ممالک ہیں جن میں پاکستان کے مقابلے میں کم پانی ہونے کے باوجود جی ڈی پی اور معیار زندگی بہت بہتر ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فالکلینڈ واٹر سٹریس انڈیکٹر کے پیمانے کے ذریعے پانی کی قلت کی پیمائش کے قطع نظر اچھا معیار زندگی ممکن ہے۔
ان ممالک میں بہتر معیار زندگی معیشت میں زراعت کا تناسب کم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے کئی ممالک ہیں، لیکن انور نے پاکستان کے ساتھ موازنے کے لیے مصر کا انتخاب کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’مصر میں پانی کی دستیابی کا کوٹہ کم ہوتے ہوتے سالانہ بنیاد پر 666 مکعب میٹر ہوگیا ہے، یعنی کہ 43 سال میں 60 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود مصر میں 2016ء میں جی ڈی پی 3,685 ڈالر فی کس تھا، جبکہ پاکستان میں صرف 1,441 ڈالر رہا۔ مصر کی معیشت میں زراعت کا حصہ محض دس فیصد ہے۔‘‘
اسرائیل صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے، لیکن وہ بھی صحیح ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل اور سیاسی عزم کے بل بوتے پر اپنی زمین کے تقریبا 40 فیصد حصے کو فضلے کے پانی سے سیراب کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکے ہیں۔ ہم ان کے شفدان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ فیسلیٹی (Shafdan Wastewater Treatment Facility) سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب کو سالانہ 14 کروڑ مکعب میٹر پانی فراہم کرکے 50,000 ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔
پانی کی قیمت کا تعین
اقتصادیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کوئی چیز کم ہو جائے اور اس کی مانگ بڑھ جائے تو اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ آج پانی کی قیمت لگانے کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ مہتداللہ کے مطابق اس مسئلے کا حل یہی ہے۔ وہ کہتے ہيں ’’اگر پانی کو موثر طور پر استعمال کرنا ہے تو اس کی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘
پاکستان کی نمایاں ترین اہم آبی ماہرسیمی کمال کہتی ہیں، ’’میں سمجھتی ہوں کہ پانی تک رسائی کے بنیادی حقوق اور گھریلو، ماحولیات، ثقافتی اور بلدیاتی استعمالات کے علاوہ، دیگر تمام استعمالات کے لیے بل بھجوا کر ادائيگی وصول کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سب سے زيادہ ضرورت زراعت کے شعبے میں ہے، جس میں 97 فیصد تک سطح پر موجود پانی اور زمین دوز پانی استعمال ہوتا ہے۔‘‘
انور اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر شہر میں پانی کی بلنگ ہونی چاہئیے، چاہے اس کی فراہمی کہیں سے بھی ہو۔ اس سلسلے میں ماحولیاتی وکیل اور کارکن احمد رافع عالم کہتے ہیں، ’’جب پانی کے بل کی بات کی جائے تو محکمہ آبپاشی کے زیراستعمال انفراسٹرکچر کے عملیات اور مرمت کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زرعی ٹیوب ویلوں کے نرخوں کی نظرثانی اور ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیمی کمال کا خیال ہے کہ جب ہر کوئی پانی کا بل ادا کرے گا تو ’’پانی کا استعمال کم ہوگا، ضیاع کم ہوگا، فصل اگانے کے پیٹرن تبدیل ہوں گے اور مارکیٹ ایڈجسٹ ہو جائے گی۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کلیاتی معیشیاتی اقدام اور نچلی سطحوں پر شہریوں کے طور طریقے اقتصادی حقیقتوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وافر مقدار میں پانی استعمال کرنے والی فصلیں، جیسے کہ گنا، ترک کردینی چاہیے کیونکہ چینی بازار سے زيادہ سستے داموں خریدی جاسکتی ہے۔
پانی کا تحفظ ہی پانی کی بچت ہے
موجودہ پانی کے وسائل کی بدانتظامی کے علاوہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارش کے پیٹرن کی تبدیلی اور ذخائر میں سرمایہ کاری ناکافی ہونے کے باعث پاکستان میں شدید سیلاب، قحط سالی اور قدرتی آفات کے اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
مہتداللہ کے نزدیک ہر سطح پر پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کرکے پانی کی قلت کے مسائل کافی حد تک حل کیے جاسکتے ہيں۔ وہ ’’بند‘‘ کے لفظ کے حساس ہونے اور ’’ذخیرے کا مکمل احساس فراہم نہ کرنے’’ کی وجہ سے اس کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے کہتے ہيں ’’ہم اس وقت دستیاب سطح کے پانی میں سے آٹھ فیصد سے بھی کم پانی ذخیرہ کر رہے ہیں۔ دریائی نظام کی ماحولیاتی بہاؤ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہم اضافی پانی کو بغیر استعمال کیے سمندر میں ضائع کردیتے ہيں، جبکہ ہمیں ایک دیرپا نظام آبپاشی کے قیام کے لیے تقریباً 40 فیصد پانی ذخیرہ کرنا چاہیئےپورا سال ہمارے دریاؤں میں پانی کی فراہمی ناہموار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ہر سطح پر مناسب ذخیرے کی عدم فراہمی کی صورت میں پانی کے وسائل کا تسلی بخش انتظام ناممکن ہوجاتا ہے۔‘‘
وہ یہ بھی کہتے ہيں کہ اس طرح دریاؤں کے نچلے حصوں میں، جہاں سال کے تین مہینے 75 سے 80 فیصد پانی دستیاب ہوتا ہے، لیکن باقی نو مہینے پانی دستیاب نہيں ہوتا، ڈیلٹا کے سوکھنے کا بہانہ ختم ہوجائے گا۔ ان کے مطابق پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کے اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے ڈیلٹا کا تحفظ اور سمندری پانی کے داخلے کی روک تھام ممکن ہے۔ ذخیرہ ہونے والے پانی کے بہتر انتظام اور برابری کے اصولوں کے تحت پورا سال یا حسب ضرورت خارج کیا جاسکتا ہے۔
1976ء میں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد اب تک کوئی نیا بند تعمیر نہيں کیا گيا ہے۔ آج دریائے سندھ کے بیسن کے دونوں بڑے ذخائر، یعنی تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم (جسے دریائے جہلم پر 1961ء اور 1967ء کے درمیان تعمیر کیا گيا تھا)، پاکستان میں سالانہ بنیاد پر گزرنے والے 4.5 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 1.4 کروڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرتے ہيں، اور وہ بھی صرف 30 روز کے لیے، جبکہ بین الاقوامی معیاروں کے مطابق یہ میعاد 120 دن ہونی چاہیئے۔
تاہم، انور کہتے ہیں کہ زیادہ انفراسٹرکچر قائم کرنے کی حکمت عملی ہمیشہ ہی سے مقبول رہی ہے، اور یہ شاید ضروری بھی ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اپنے موجودہ پانی کے انتظام کو بہتر بنا کر انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کی بھی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں میں پانی کے شعبے کو بہتر بنانے کی صلاحیت محدود ہے، لیکن انہيں ٹھیک کرنے کی متعدد کوششیں اور سرمایہ کاری ناکام رہے ہيں۔ وہ پانی کے انتظام کے لیے نجی شعبے کی مداخلت کی حمایت کرتے ہيں، اور کہتے ہيں ’’ہمیں کوئی مزید اختراعی حل نکالنا ہوگا۔ سہولیات کی تقسیم کرکے غیرریاستی شعبوں کے ہاتھ میں دے کر ان مسائل کے حل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔‘‘
یہ مضمون ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو پاکستان میں شائع ہوا تھا، جو قارئین کے لیے اُن کی اجازت سے پیش کیا گیا ہے۔