—فوٹو، ڈان اخبار
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے خرازی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ہندوستان نے چاہ بہار میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے، مگر یہ منصوبہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ایک کھلا پلیٹ فارم ہے۔ "چاہ بہار منصوبے کا مقصد ایران کو وسطی ایشیاء سے منسلک کرنا ہے تاکہ ایرانی معیشت مضبوط ہو سکے۔" ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ کافی عرصے سے زیرِ غور تھا، اس لیے اس کے آغاز کو سی پیک کے آغاز سے جوڑنا درست نہیں ہے۔
"ہم ہندوستان کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھا رہے ہیں اور ہندوستان بھی چاہ بہار میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، مگر ہم نے منصوبے پر ہندوستان کو امتیازی حقوق نہیں دیے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ ایران اقتصادی شراکت داریاں قائم کرتے ہوئے "ہندوستان اور خطے میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو مدِنظر رکھتا ہے۔"
"ہم نے ہندوستان پر کئی دفعہ مسئلہ کشمیر کو پرامن اور منصفانہ طریقے سے حل کرنے کے لیے زور دیا ہے۔ ہم اس 70 سال پرانے تنازعے کو حل کرنے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالث بننے کے لیے بھی تیار ہیں مگر ہمیں کبھی بھی ہندوستان سے اس پر مثبت جواب نہیں ملا ہے۔"
مزید پڑھیں: بھارت کا براستہ ایران چاہ بہار افغانستان سے تجارت کاآغاز
انہوں نے کہا کہ ’پر اگر ہم اقتصادی شراکت داریوں کی بات کریں تو پاکستان کے بھی امریکا سے تعلقات ہیں جس نے ہم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، مگر ایران اس کا برا نہیں مناتا‘۔
ان کے مطابق پاکستان اور ایران کے درمیان دو طرفہ تجارت کئی وجوہات کی بناء پر مشکلات کا شکار ہیں جن میں ایک وجہ پاکستانی بینکوں کا امریکی پابندیوں کے خوف سے ایران کے ساتھ تجارت کرنے میں ہچکچاہٹ بھی شامل ہے۔
سابق ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ’یہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو متاثر کرنے والی اہم ترین وجوہات میں ہے ایک ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں امریکا کے ساتھ ڈیل نہ کرنے والے چھوٹے پاکستانی بینکوں کو ایران کے ساتھ تجارت کے لیے بااختیار بنانے پر بات چیت کر رہی ہیں تاکہ دو طرفہ تجارت کو بڑھایا جا سکے، جبکہ ’دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کا معاہدہ زیرِ بحث ہے اور منظوری کے بعد اس سے مزید کاروبار کے لیے دروازے کھلیں گے‘۔
مزید پڑھیں: ایران کی پاکستان کو چاہ بہار بندرگاہ منصوبے میں شمولیت کی پیشکش
کمال خرازی، جو 1997 سے 2005 تک ایران کے وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ دو طرفہ تجارت پر منفی اثرات کی ایک وجہ ’امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے زبردست دباؤ کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی عدم دلچسپی‘ بھی ہے۔
"ہم نے گیس پائپ لائن پراجیکٹ کی ایرانی جانب تعمیر مکمل کرلی ہے، پر بظاہر حکومتِ پاکستان بین الاقوامی دباؤ میں ہے، جس کی وجہ سے منصوبہ آگے نہیں بڑھ رہا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ منصوبہ اس لیے تاخیر کا شکار ہے کیوں کہ ایران گیس کی پیشکش نہایت مہنگے داموں کی ہے، مگر یہ تاثر درست نہیں ہے۔
افغانستان میں امریکی موجودگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی نظر میں امریکا، افغانستان سے مستقبل قریب میں فوجی انخلاء نہیں کرے گا کیوں کہ وہ اپنے اسٹریٹجک مقاصد کی وجہ سے خطے میں رہنا چاہتا ہے، جبکہ ’ایران افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کسی بھی طرح کے امن مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، اور اگر ایسا کوئی بھی سمجھوتہ ہوجاتا ہے، تو امریکا کے پاس اس ملک میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا جس پر اس نے 17 سال قبل حملہ کیا تھا‘۔
مزید پڑھیں: ایران: چاہ بہار پورٹ کے توسیعی حصے کا افتتاح
افغانستان مین استحکام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کو [افغانستان میں استحکام کے لیے] کردار ادا کرنا ہوگا کیوں کہ [خطے کے] تمام ممالک خطے کے درمیان موجود اس تنازعے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
علاقائی تنازعات میں ایران کی مبینہ مداخلت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایرانی خارجہ پالیسی کا ایک ستون دوسرے ممالک بالخصوص مسلم ممالک میں بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت کی مزاحمت کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے [امریکی حملے کے بعد] عراق کی مدد کی اور ہم شام کی بھی مدد کر رہے ہیں، مگر دونوں ممالک کی حکومتوں نے [ایران سے] شدت پسند تنظیم داعش کو شکست دینے کے لیے مدد کی درخواست کی تھی، یہ اس وقت ’مداخلت‘ کے زمرے میں آتی جب ہم ان کے بلائے بغیر وہاں پہنچ جاتے‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اقتصادی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو ایک طویل عرصے تک مشکلات میں ڈالے رکھا، مگر اب یہ ان کئی ممالک کی معیشتوں سے بھی بہتر ہے جن پر امریکی پابندیاں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہمارے لوگوں نے ایک طویل عرصے پابندیوں کو برداشت کیا ہے اور ان کی وجہ سے مشکلات اٹھائی ہیں، مگر ہم اپنی ذہانت، دانائی، اور عزم و ہمت سے مسائل کا مقابلہ کر رہے ہیں۔"
یہ خبر 31 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
انگلش میں پڑھیں۔