ایون فیلڈ ریفرنس: نیب کے گواہ واجد ضیاء پر سخت جرح کا سلسلہ جاری رہا
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء پر تیسرے روز بھی جرح کا سلسلہ جاری رہا۔
وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف، ان کی صاحبزدای مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر بھی پیش ہوئے۔
دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نیب گواہ واجد ضیاء پر جرح کیا، اس دوران نیب پراسیکیوٹر جنرل مظفر عباسی اور خواجہ حارث کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
اس دوران واجد ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے تفتیش شروع کرنے سے پہلے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں اور جوابات کا جائزہ لیا اور شریف خاندان کے جواب میں جیرمی فرم مین کا خط موجود تھا۔
مزید پڑھیں: ’قطری شہزادے کا قطر میں بیان ریکارڈ کرنے پر جے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہیں تھا‘
واجد ضیاء نے بتایا کہ جیرمی فری مین نے ٹرسٹ ڈیڈ درست ہونے کی تصدیق کی تھی جبکہ ہم نے براہ راست جیرمی فری مین سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
دوران سماعت انہوں نے بتایا کہ جیری فری مین سے خط و کتابت جے آئی ٹی نے براہ راست نہیں کی بلکہ اس کام کے لیے برطانیہ میں سولیسٹر کی خدمات حاصل کی گئیں۔
جرح کے دوران واجد ضیاء کا کہنا تھا یہ بات درست ہے کہ جیری فری مین نے تصدیق کی کہ حسن نواز نے 2 ٹرسٹ ڈیڈ پر 2 جنوری 2006 کو دستخط کیے اور جیری فری مین اس ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کے گواہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ نیلسن اور نیسکول سے متعلق تھی، جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے جیری فری مین کو لکھا کہ تمام دستاویزات اور ثبوتوں کے ساتھ پاکستان آ کر اپنا بیان دے؟ جس پر واجد ضیاء نے بتایا کہ جیری فری مین کو پاکستان آنے کا نہیں کہا تھا۔
سماعت کے دوران خواجہ حارث کی جانب سے گلف اسٹیل مل پر بات کرتے ہوئے پوچھا گیا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے مطابق گلف اسٹیل مل دبئی میں کب قائم ہوئی؟
اس پر واجد ضیاء نے بتایا کہ ہماری تفتیش اور دستاویزات کی روشنی میں گلف اسٹیل مل 1978 میں بنی، جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ 1978 کے شیئرز سیل کنٹریکٹ دیکھ لیں کیا آپ نے ان کی تصدیق کرائی۔
خواجہ حارث کے سوال پر واجد ضیاء نے کہا کہ گلف اسٹیل مل کے کنٹریکٹ کی تصدیق نہیں کرائی، اس پر خواجہ حارث نے جرح کیا کہ اگر آپ نے تصدیق نہیں کرائی تو کیا آپ اس کنٹریکٹ کے مندرجات کو درست تسلیم کرتے ہیں
اس دوران واجد ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے گلف اسٹیل مل کے کنٹریکٹ کو درست تسلیم کیا۔
عدالت میں جرح کرتے ہوئے خواجہ حارث نے پوچھا کہ 14اپریل 1980 کو حالی اسٹیل مل بنی کیا آپ نے اس کے مالک سے رابطہ کیا، جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ گلف اسٹیل مل کے بعد حالی اسٹیل مل بنی لیکن ہم نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
خواجہ حارث نے مزید پوچھا کہ کیا آپ نے اسٹیل مل کے معاہدے کے گواہ عبدالوہاب سے رابطہ کیا، جس واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں ان سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا، گواہ نمبر 2 محمد اکرم سے رابطہ کیا لیکن وہ اس پتے پر موجود نہیں تھے۔
دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پوچھا کہ اسکریپ مشینری دبئی سے جدہ بھیجنے والا خط آپ نے دیکھا، جس پر نیب کے گواہ نے کہا کہ جی جے آئی ٹی نے وہ خط دیکھا تھا۔
خواجہ حارث نے جرح کی کہ جے آئی ٹی کے جلد 3 میں جو خط لگا ہوا ہے اس کے مطابق اسکریپ دبئی نہیں بلکہ شارجہ سے جدہ گیا؟ اس پر واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اسکریپ شارجہ سے جدہ گیا۔
سماعت کے دوران خواجہ حارث نے مزید پوچھا کہ خط کے مطابق وہ اسکریپ نہیں بلکہ استعمال شدہ مشینری تھی، اس کا جواب دیتے ہوئے واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اسکریپ نہیں بلکہ وہ استعمال شدہ مشینری تھی۔
اس موقع پر خواجہ حارث نے جرح جاری رکھتے ہوئے سوال کیا کہ جے آئی ٹی نے دبئی اتھارٹی کو ایم ایل اے بھیجا کہ شارجہ سے جدہ اسکریپ بھیجنے کا کوئی ریکارڈ موجود ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا گیا۔
واجد ضیاء نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے کسی بینک کو 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشن کے ریکارڈ کے لیے نہیں لکھا، منسٹری آ ف جسٹس کے خط کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ1980 کا خط جعلی ہے۔
دوران سماعت واجد ضیاء اور خواجہ حارث میں مکالمہ بھی ہوا، اس دوران واجد ضیاء نے کہا کہ آپ مجھے ہدایت کر رہے ہیں، آپ مجھ سے سوال کریں۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ کی میری کوئی لڑائی ہے، جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ آپ کا یہ پیشہ ورانہ کام ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آپ میرے کنڈکٹ سے ناخوش ہیں، جس پر واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔
بعد ازاں عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیر 2 اپریل کی صبح تک ملتوی کردی۔
احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: مریم نواز کا واجد ضیاء کے دستاویزات پر اعتراض
تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔
بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔
کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔
ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔
نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔
عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔
6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔
7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔
11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔
19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔
3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔
9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔
16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔
22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔
نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔
23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔
مزید پڑھیں: نیب ریفرنسز: شریف خاندان کے خلاف مزید دو گواہان طلب
30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔
نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔
بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔
نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی سے 2 ہفتوں کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 15 فروری کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں 19 فروری کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ریکارڈ سمیت عدالت طلب کیا تھا، جس کے بعد وہ 22 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم بیان ریکارڈ نہیں کراسکے تھے۔
8 مارچ کو احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔
20 مارچ کو احتساب عدالت میں واجد ضیاء کی جانب سے بیان ریکارڈ کرانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا اور انہوں نے نواز شریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا ریکارڈ پیش کیا تھا جبکہ ان کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔